Maktaba Wahhabi

561 - 625
کے،لیکن عصر کے سلسلے میں اہلِ علم نے وضاحت کی ہے کہ اس کا تعلق وقت کے داخل ہو جانے سے نہیں،بلکہ نمازِ عصر کے ادا کر لینے سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی شخص نے ابھی عصر کی نماز نہیں پڑھی،اگرچہ عصر کا وقت کب سے ہو چکا ہے تو وہ شخص تحیۃ الوضو،تحیۃ المسجد یا عام نوافل پڑھ سکتا ہے اور جب وہ عصر پڑھ لے گا تو پھر اس کے لیے نوافل کی ممانعت ہوگی۔اس طرح فجر اور عصر سے متعلقہ ممانعت کے مابین فرق ہوگیا۔عصر سے متعلقہ ممانعت نماز کے ساتھ خاص ہونے کے بارے میں امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ’’المغني‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اہلِ علم مطلقاً نمازِ عصر کے بعد نوافل کی ممانعت کے قائل ہیں۔اس سلسلے میں علما کا کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے۔[1] اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کے نزدیک تمام علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اطلاق ممانعت کی شکل میں اس کا حکم نماز ادا کرنے کے بعد سے تعلق رکھتا ہے۔محض عصر کا وقت ہو جانے سے نہیں۔ نمازِ طواف: انہی مستثنیٰ نمازوں میں سے طواف بیت اللہ کے بعد پڑھی جانے والی دو رکعتیں،یعنی نمازِ طواف بھی ہے،جسے ان ممنوع اوقات میں بھی پڑھا جا سکتا ہے،کیوں کہ سننِ اربعہ،صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم اور مسند احمد میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متولیانِ کعبہ بنی عبدِ مناف سے مخاطب ہوکر فرمایا: ﴿یَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ!لَا تَمْنَعُوْا أَحَداً طَافَ بِھٰذَا الْبَیْتِ وَصَلّٰی أَیَّۃَ سَاعَۃٍ شَآئَ مِنْ لَّیْلِ أَوْ نَھَارٍ[2] ’’اے بنی عبدِ مناف!کسی ایسے شخص کو مت روکو،جو بیت اللہ کا طواف کرے یا نماز پڑھے،دن کا وقت ہو یا رات کا۔‘‘
Flag Counter