Maktaba Wahhabi

493 - 625
حضرت جابر رضی اللہ عنہم کے آثار بھی ذکر کیے ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اِسفار یعنی روشنی میں نہیں،بلکہ غلس(اندھیرے) میں نمازِ فجر پڑھتے تھے۔[1] اس طرح اجماعِ صحابہ کے دعوے کا بطلان اور امام نخعی کے قول کا ضعف واضح ہو گیا ہے۔ جمع و تطبیق: ان دونوں اقوال میں اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ نمازِ فجر کا وقت طلوعِ فجر ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور غلس میں نماز پڑھ لینا جائز ہے اور اسفار میں بھی۔اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ ان دونوں اوقات میں سے افضل کون سا ہے؟ دلائل و براہین آپ کے سامنے آچکے ہیں،جنھیں سامنے رکھنے پر بہ آسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اندھیرے میں نماز ادا کرنے کے افضل ہونے پر دلالت کرنے والی احادیث تعداد میں زیادہ اور سند و متن کے اعتبار سے صحیح تر اور قوی ہیں۔علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے بقول اکثر اہلِ علم کا یہی مذہب ہے،جیسا کہ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں انھوں نے بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اسفار والی حدیث بھی حدیث صحیح ہے،جس کے اہلِ علم نے متعدد جوابات دیے ہیں۔امام ترمذی کے بقول امام شافعی،امام احمد اور اسحاق رحمہم اللہ نے اِسفار کا معنیٰ یہ کیا ہے کہ طلوعِ فجر کا یقین کر لے،حتیٰ کہ اس میں کوئی شک نہ رہ جائے،مگر کئی روایات سے اس کی نفی ہوتی ہے۔[2] ان ہر دو طرح کی احادیث میں جمع و تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ اِسفار سے مراد نمازِ فجر کا آغاز کرنا نہیں،بلکہ صحیح احادیث کی رو سے آغاز تو غلس ہی میں مسنون ہے،البتہ دو نوں رکعتوں میں قراء ت اتنی طویل ہو کہ نماز کا اختتام اسفار پر ہو۔﴿أَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ﴾ اور ایسی ہی دیگر احادیث کے الفاظ سے یہی معنیٰ معلوم ہوتا ہے۔امام طحاوی رحمہ اللہ نے معانی الآثار میں اسی مفہوم کی تائید کی اور لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ،ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔[3] اس تطبیق کا تائید کئی احادیث سے بھی ہوتی ہے،جن میں سے ایک صحیح بخاری اور مسلم،سنن ابو داود،نسائی،ابن ماجہ،بیہقی،مسندِ احمد،مصنف ابن ابی شیبہ اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت
Flag Counter