Maktaba Wahhabi

413 - 625
یہ مطابقت بھی اگرچہ کبار علما کی طرف منسوب ہے،لیکن اس سے بھی بہتر مطابقت وہ ہے،جس میں کپڑ ے کے حائل ہونے پر عدمِ نقض اور بغیر حائل کے نقض کا کہا گیا ہے اور راجح مسلک بھی جمہور ہی کا ہے کہ کپڑا حائل نہ ہو تو مسِ فرج سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جب اس معاملے میں بڑے اور چھوٹے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا تو پھر یہاں ایک بات خواتین بطورِ خاص ذہن نشین کر لیں کہ اگر وہ وضو سے ہوں اور اسی حالت میں انھیں بچی یا بچے کو نہلانا یا ان کے پاخانہ کرنے پر انھیں دھونا پڑ ے تو اس کے بعد وہ اپنا وضو ختم سمجھیں اور نماز وغیرہ کے لیے از سرِ نو وضو کرلیں۔’’المحلّٰی‘‘ اور ’’المغني‘‘ کی عبارات سے تو محسوس ہوتا ہے کہ امام عطاء،شافعی،ابو ثور اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک وہ وجوباً وضو کریں اور چھوٹے بڑے میں امام اوزاعی و زہری کے بقول اگر فرق مانا ہی جائے تو پھر بھی اس اختلاف سے نکلنے کے لیے احتیاطاً یہی بہتر ہے کہ وہ بچے کو دھو نے کے بعد نماز وغیرہ کے لیے از سر نو وضو کر لیا کریں کہ یہ نہ صرف زیادہ قرینِ احتیاط ہے،بلکہ افضل بھی ہے۔خصوصاً اس لیے بھی کہ فرق پر دلالت کرنے والی جو روایت ہے،اسے ذکر کرنے کے بعد امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اسے غیر ثابت قرار دیا ہے اور ’’المغني‘‘ کے محققین نے لکھا ہے کہ ہماری متداول کتب میں یہ روایت سرے سے کسی میں موجود ہی نہیں ہے۔[1] 9۔نیند: وہ امور جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے،انہی میں سے ایک نیند بھی ہے کہ اگر کوئی شخص وضو سے ہو اور سو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔بیدار ہونے پر اسے دوبارہ وضو کرکے نماز وغیرہ ادا کرنا ہوگی اور اس کے متعدد دلائل ہیں۔چنانچہ سنن ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ،ابن حبان،مسند احمد،شافعی،سنن دار قطنی اور سنن بیہقی میں ایک حدیث ہے،جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’أحسن شییٔ في الباب‘‘ قرار دیا ہے اور امام ترمذی،خطابی اور نووی نے اسے صحیح کہا ہے۔اس حدیث میں حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ﴿أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا کُنَّا[مُسَافِرِیْنَ] أَوْ سَفْراً أَنْ لَّا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَۃَ
Flag Counter