Maktaba Wahhabi

441 - 625
﴿اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِي الدِّیْنِ[1] ’’اے اللہ!انھیں دین کی سمجھ عطا فرما۔‘‘ صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے: ﴿اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ[2] ’’اے اللہ!انھیں قرآن کا علم عطا فرما۔‘‘ امام ابن کثیر اور طبری رحمہما اللہ : امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں سورۃ النساء کی آیت کے تحت لکھا ہے کہ مفسّرین اور ائمہ کرام کے اس لفظ ﴿لٰمَسْتُمُ﴾ کے معنیٰ کے سلسلے میں دو الگ الگ قول ہیں،جن میں سے ایک تویہ ہے کہ یہاں لمس سے مراد جماع ہے،کیوں کہ قرآنِ کریم ہی کے دوسرے دو مقامات پر بھی مس کرنے یا چھونے سے جماع ہی مراد لیا گیا ہے،جیسا کہ سورۃ البقرہ(آیت: 237) میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ’’اور اگر تم عورتوں کو اُن کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو،لیکن مہر مقرر کر چکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا،ہاں اگر عورتیں بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقدِ نکاح ہے(اپنا حق) چھوڑ دیں۔‘‘ اس آیت میں مس سے مراد جماع ہے۔اسی طرح سورۃ الاحزاب(آیت: 49) میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا ’’مومنو!جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے اُن کو ہاتھ لگانے(اُن کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو،تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ اُن سے عدت پوری کرواؤ۔‘‘ اس آیت میں بھی مس بہ معنیٰ جماع ہی ہے۔تفسیر القرآن بالقرآن کے طور پر یہ دو آیتیں ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے متعدد اسانید کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اقوال
Flag Counter