Maktaba Wahhabi

363 - 625
’’اگر دو ضربوں اور کہنیوں تک مسح کرنے والی کوئی حدیث صحیح اور مرفوع ہوتی تو حضرت شاہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بات بھی درست ہوتی،جب کہ یہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہے کہ ایک ضرب اور صرف ہاتھوں کے مسح والی احادیث متفق علیہ ہیں اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہی فتویٰ دیا کرتے تھے اور راویِ حدیث اس حدیث کی مراد کو سب سے بہتر جانتے ہیں،خصوصاً جب کہ وہ مجتہد بھی ہوں۔‘‘[1] لہٰذا مذکورہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے؟ علاوہ ازیں وہ اثر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے اور صرف ان کافعل تو کمالِ تیمم کو ثابت نہیں کرسکتا۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ وہ وضو میں پاؤں کو سات سات مرتبہ دھویا کرتے تھے،جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباري‘‘ میں بھی بیان کیا ہے تو کیا یہاں بھی یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں کو سات سات مرتبہ دھونا کمالِ وضو اور کمال غسل الرجلین ہے!نہیں اور قطعاً نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تو اپنی صحیح میں ایک باب ہی یوں قائم کیا ہے: ’’بَابُ التَیَمُّمُ ضَرْبَۃٌ‘‘[2] ’’تیمم ایک ہی ضرب ہے۔‘‘ یہی اَولیٰ اور افضل ہے۔ ہاتھوں کا مسح کہاں تک؟ تیمم کے احکام و مسائل میں سے اس مسئلے میں بھی اہلِ علم کی آرا مختلف ہیں کہ ہاتھوں کا باہم مسح کہاں تک کیا جائے؟ ہاتھ اور کلائی کے درمیان والے جوڑ(گٹے) تک یا کہنیوں تک؟ یہ اختلاف رائے بھی تقریباً مسح کے لیے ایک ضرب یا دو ضربوں والے اختلاف سے ملتا جلتا ہے اور دلائل کے ضعف و قوت کا بھی وہی معیار ہے،جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے میں کہ تیمم محض ایک علامتی طہارت اور غسل و وضو کا قائم مقام ہے اور علامتی طہارت میں ظاہر ہے کہ تمام اعضاے غسل و وضو کا استیعاب مطلوب نہیں ہوسکتا،اگر ایسا ہوتا تو غسل کے لیے تیمم کرتے وقت پورے بدن پر مٹی ملنا پڑتی اور وضو کے لیے منہ اور ہاتھوں کے علاوہ پاؤں کا بھی مسح کرنا پڑتا،مگر ایسا نہیں ہے۔
Flag Counter