Maktaba Wahhabi

591 - 625
اسے سرّی ہی پڑھا جائے گا،یعنی اس میں قراء ت جہری یا بلند آواز سے نہیں کی جائے گی،جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے الفاظ ظہر و عصر کے بارے میں ہیں: ﴿فَصَلَّاھَا کَمَا یُصَلِّیْھِمَا فِيْ وَقْتِھَا[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس طرح پڑھا،جس طرح اسے اس کے وقت پر پڑھا کرتے تھے۔‘‘ ایسے ہی فجر وغیرہ میں دن کے وقت بھی قراء ت جہری ہوگی،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قضاے فجر سے پتا چلتا ہے۔[2] قضا نماز کی اقامت وجماعت: قضا نماز کے لیے اقامت و جماعت کے حکم کے سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں مستقبل ایک باب باندھا ہے: ’’بابُ من صلیّٰ بالناسِ جماعۃً بَعْدَ ذہابِ الوقتِ‘‘ ’’جس نے وقت گزر جانے کے بعد کسی نماز کو جماعت کے ساتھ لوگوں کو پڑھائی۔‘‘ اس باب کے تحت جو حدیث لائے ہیں،وہ صحیح مسلم،ترمذی اور دیگر کتبِ حدیث میں بھی مروی ہے،جس میں غزوہ خندق یا خواب کا ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق کے دن غروبِ آفتاب کے بعد آئے،جب کہ وہ کفارِ قریش کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!’’مَا کِدْتُّ أُصَلِّيْ الْعَصْرَ حَتَّیٰ کَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ‘‘ ’’میں نمازِ عصر اس وقت تک نہیں پڑھ سکا،جب تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب نہیں ہوگیا۔‘‘ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿وَ اللّٰہِ مَا صَلَّیْتُھَا﴾ ’’اللہ کی قسم!میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی۔‘‘ آگے وہ بیان فرماتے ہیں: ﴿فَقُمْنَا إِلٰی بُطحَانَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاۃِ وَتَوَضَّأْنَا لَھَا،فَصَلَّی الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرُبَتِ الشَّمْسُ،ثُمَّ صَلّٰی بَعْدَھَا الْمَغْرِبَ
Flag Counter