Maktaba Wahhabi

138 - 625
ذَلِکَ لِأَنَّہُمَا مِمَّا لاَ یُمْکِنُ التَّحَرُّزُ مِنْہُمَا لِمُقْتِنِیْہِمَا فَأَشْبَہَ السِّنَّوْرَ[1] ’’میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ خچر اور گدھے کا جُھوٹا پانی پاک ہے،اس لیے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر سواری فرمائی ہے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دَور میں ان پر سواری کی جاتی تھی۔اگر وہ نجس ہوتے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ضرور بتا دیتے،کیوں کہ ان دونوں(کے پسینے) سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے۔پس یہ بِلّی کے مشابہ ہیں۔‘‘ 3۔بِلّی کا جُھوٹا: بِلّی جو نہ تو ماکُول اللحم ہے اور نہ جنگلی ہی،بلکہ گھر میں عام پایا جانے والا جانور ہے،اس کے گھروں میں بکثرت پائے جانے کی وجہ سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر میں کام کاج کرنے والے خادموں سے تشبیہ دی ہے اور اس کا جُھوٹا پاک قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث سنن ابی داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،مسندِ احمد اور مسندِ شافعی،موطا امام مالک اور سنن بیہقی میں مروی ہے،جسے امام بخاری،عقیلی،ابن خزیمہ،ابن حبان،حاکم اور دارقطنی رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی بہو کبشہ بنت کعب بن مالک بیان کرتی ہیں کہ(ان کے سُسر) حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ ان کے یہاں تشریف لائے تو انھوں نے ان کے لیے وُضو کا پانی ڈالا۔اتنے میں ایک بلّی آئی اور اس پانی سے پینے لگی۔حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے برتن اس بِلّی کی طرف ٹیڑھا کر دیا،یہاں تک کہ اس نے پانی پی لیا۔کبشہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے مجھے تعجب سے دیکھتے ہوئے پایا تو کہنے لگے: ’’اے میری بھتیجی!کیا تمھیں اس چیز پر تعجب ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ہاں!تو انھوں نے کہا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّہَا لَیْسَتْ بِنَجَسٍ،إِنَّہَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ وَالطَّوَّافَاتِ [2]
Flag Counter