Maktaba Wahhabi

399 - 625
ایک اور روایت میں ہے: ’’لِمِکَانِ فَاطِمَۃَ‘‘ ’’ فاطمہ کی وجہ سے۔‘‘ مطلب یہ کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور سُسر و داماد کے باہمی حساس رشتے کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود مذکورہ مسئلہ پوچھنے کے بجائے اپنے ساتھی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو بھیجا،اس رشتے کی نزاکت کا یہی تقاضا تھا کہ وہ اس مسئلے میں حیا کے پیشِ نظر یہی طریقہ اپنائیں۔’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ نے اور فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ادب کا تقاضا یہی تھا کہ داماد اپنے سُسرالی رشتے داروں سے ایسے امور کے متعلق گفتگو نہ کرے۔یہ شک ہو سکتا تھا کہ اس مادے کا خروج شاید صرف مردوں ہی میں ہو،عورتوں میں نہ ہو،لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے اس شک کو بھی رفع کر دیا ہے،چنانچہ ’’المجموع‘‘ ہی میں موصوف نے لکھا ہے کہ اس مادے کا خروج صرف مرد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عورت تو اس معاملے میں مرد سے بھی آگے ہے۔[1] سنن ابی داود اور مسند احمد میں اس حدیثِ علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت ہے،اس میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں: ﴿یَغْسِلُ ذَکَرَہٗ وَأُنْثَیَیْہِ وَیَتَوَضَّأُ موطا امام مالک اور ابو داود ہی کی ایک دوسری حضرت عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: ﴿فَتَغْسِلُ مِنْ ذٰلِکَ فَرْجَکَ وَأُنْثَیَیْکَ وَتَوَضَّأْ وُضُوْئَ کَ لِلصَّلَاۃِ [2] ان دونوں روایتوں کا مفہوم ایک ہی ہے: ’’ایسے میں استنجا کرتے وقت(مرد) شرم گاہ کے ساتھ اپنے ہی خصیے بھی دھوئے اور پھر وضو کرے۔‘‘ خروجِ مذی سے متعلقہ احادیث: نواقضِ وضو میں سے مذی کا ذکر ہو رہا ہے اور آخر میں دو روایتیں سنن ابی داود وغیرہ کے حوالے سے ذکر کی جاچکی ہیں،جن میں مذی کے خروج پر استنجا کرنے اور مردوں کے لیے خصیے بھی
Flag Counter