Maktaba Wahhabi

514 - 625
’’میری امّت اس وقت تک فطرتِ سلیمہ پر رہے گی،جب وہ ستاروں کی جھلمل جھلمل کرنے تک نمازِ مغرب کو موخر نہ کیا کریں گے۔‘‘ بالکل اسی مفہوم بلکہ انہی الفاظ والی ایک حدیث سنن ابو داود،مسند احمد اور مستدر ک حاکم میں بھی ہے،جو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہیں،جنھوں نے تحدیث کی بھی صراحت کی ہے۔فرق صرف اِتنا ہے کہ اس حدیث میں ہے: ﴿لَا تَزَالُ أُمَّتِيْ بِخَیْرٍ أَوْ قَالَ:﴿عَلَی الْفِطْرَۃِ[1] ’’میری امّت بہتری سے رہے گی،اور فطرتِ سلیمہ پر رہے گی۔‘‘ اور پہلی میں ہے: ﴿لَا تَزَالُ أُمَّتِيْ عَلَی الْفِطْرَۃِ﴾ ’’میری امت ہمیشہ فطرتِ سلیمہ پر رہے گی۔‘‘ جب کہ اسی موضوع کی کئی اور احادیث بھی ہیں تو پھر اندازہ فرمائیں کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی مرویات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ غروبِ آفتاب کے فوراً بعد ستاروں کے جگمگانے سے پہلے نماز پڑھنا فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے،مگر آج کچھ لوگ(حبِّ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے سرشاری کے دعوے دار) اذانِ مغرب کے لیے ستارہ نظر آنے کے منتظر رہتے ہیں!! وقتِ عشا: فجر و ظہر اور عصر و مغرب کے اوقات ذکر کیے جا چکے ہیں۔آئیے اب نمازِ عشا کے اوّل و آخر وقت کی تعیین بھی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کریں،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام والی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکور ہے کہ عشا کا وقت شفق کے غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے اور ایک تہائی رات یا نصف شب تک رہتا ہے،چنانچہ اس حدیث میں پہلے دن کی نمازِ عشا کے بارے میں یہ الفاظ ہیں: ﴿فَصَلَّی الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز تب پڑھی،جب شفق(یعنی شام کی سُرخی) غائب ہوگئی۔ دوسرے دن کی نمازِ عشا کے بارے میں یہ الفاظ ہیں:
Flag Counter