Maktaba Wahhabi

499 - 625
سے لے کر پانچ قدم تک کے مابین ہوتا تھا اور موسم سرما میں پانچ سے سات قدم تک کے مابین ہوتا تھا۔‘‘ امام سیوطی رحمہ اللہ اور علامہ سندھی نے حاشیہ سنن ابو داود و نسائی میں وضاحت فرمائی ہے کہ جس انسان کا سایہ دیکھنا ہو تو وہ اسی کے قد کاٹھ اور قدم کی لمبائی کے مطابق ہوگا اور اصل و زائد دونوں سایوں کا مجموعہ اتنا ہو،جب کہ اصلی سایہ(فئی) سے مراد وہ سایہ ہے جو سورج کے عین سرپر ہوتے اور عام طور عام پر مشاہدہ میں آنے والی بات بھی ہے کہ موسمِ سرما میں سایہ لمبا ہوتا ہے بنسبت گرما کے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مختلف اقالیم و ممالک میں سائے کی یہ مقدار کم و بیش ہوتی ہے،کیوں کہ جن ممالک میں سورج جتنا بلند ہوگا،اتنا ہی وہاں سایہ کم ہوگا اور جہاں سورج جتنا سر سے دور ہوگا،وہاں سایہ لمبا ہوگا اور مکہ و مدینہ اقلیم ثانی میں شمار ہوتے ہیں اور سائے کی اس مقدار کا اندازہ بھی وہیں کا ہے اور دوسری اقالیم میں یہ کم و بیش ہوگا۔[1] اور ہر ملک میں زوال معلوم کر نے کے لیے علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ نے ’’عون المعبود شرح سنن أبي داؤد‘‘ میں ایک ضابطہ بھی وضع کیا ہے،جس کی تفصیل مذکورہ مقام پر دیکھی جا سکتی ہے۔’’المرقاۃ شرح المشکاۃ‘‘ میں ملا علی قاری رحمہ اللہ نے علامہ سبکی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ابو داود اور نسائی کی حدیث کے معنیٰ میں علما کے مابین اختلاف ہے اور میرے نزدیک اس کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسمِ گرما میں نمازِ ظہر کو اس کا آدھا وقت گزر جانے کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے۔‘‘[2] اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ان کے نزدیک نمازِ ظہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اتنا انتظار کیا جائے کہ کسی بھی چیز کا سایہ اس سے آدھا ہو جائے۔بالفاظ دیگر چھے فٹ کی چیز کا سایہ تین فٹ ہو جائے،مگر یہ صرف انتہائی شدید گرمی کے دو تین ماہ کے لیے ہے۔عام حالات میں نہیں۔ ظہر وعصر کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ: ظہر و عصر کا وقت معلوم کرنے کے بارے میں احادیث میں جو کسی چیز کے سائے کے ایک
Flag Counter