Maktaba Wahhabi

234 - 625
ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم اور بعض دیگر کتب میں بھی بعض احادیث موجود ہیں۔اکثر اہلِ علم کا عمل بھی یہی رہا ہے اور وہ صرف پگڑی پر مسح کرلینے پر ہی اکتفا کیا کرتے تھے۔[1] اس سے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف سر کے مسح پر کفایت کرنا بھی جائز ہے۔امام اوزاعی،ایک روایت میں ثوری،احمد،ابو ثور،طبری،ابن خزیمہ اور ابن المنذر کا یہی مسلک ہے۔امام ابن المنذر کا کہنا ہے کہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہ ثابت ہے اور صحیح حدیث میں یہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿إِنْ یُّطِعِ النَّاسُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ یَرْشُدُوْا [2] ’’اگر لوگ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی اطاعت کریں گے تو رشد و ہدایت پاجائیں گے۔‘‘ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں عمامہ کے لفظ کو شاذ قرار دینے اور کئی دیگر تعلیلیں ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے انھیں لا یعنی قرار دیا ہے اور لفظِ عمامہ کو ثقہ راوی کا اضافہ ا ور قابلِ قبول کہا ہے،پھر صرف عمامہ پر مسح پر اکتفا کرنے کو جائز کہنے کی رائے کی طرف اپنا میلان ظاہر کیا ہے۔البتہ اس میں شرط یہ ہے کہ عمامہ اتارنے میں مشقت ہو تو اس پر کفایت کی جاسکتی ہے۔[3] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق ایک مسلک کی تائید ہے اور جمہور کا مسلک بھی وہی ہے،البتہ حافظ عسقلانی رحمہ اللہ اور کثیر علما نے صرف عمامہ پر اکتفا کو بھی جائز قرار دیا ہے اور مذکورہ بالا حدیثِ بخاری ان کی موید ہے۔ ٹوپی کا حکم: یہ حکم تو عمامہ اور پگڑی کے بارے میں ہے،جس کا دَورانِ وُضو مکمل طور پر اتارنا حرج کا باعث ہوسکتا ہے۔اب رہا معاملہ ٹوپی کا،جیسے قراقلی اور رام پوری ٹوپیاں یا جناح کیپ وغیرہ ہیں،ظاہر ہے کہ انہیں اتارنا مشکل نہیں ہوتا،لہٰذا انھیں اتار کر پورے سر ہی کا مسح کرنا چاہیے۔امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ٹوپی پر مسح جائز ہی نہیں ہے۔امام ابن المنذر کا کہنا ہے کہ ٹوپی پر مسح کرنے کا کوئی قول نہیں سوائے اس کے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ٹوپی پر مسح کیا۔
Flag Counter