Maktaba Wahhabi

589 - 625
’’ہر شخص اپنی سواری پکڑ لے(اور آگے چل نکلے) بے شک یہ مقام ایسا ہے کہ جہاں ہمارے پاس شیطان پہنچ گیا ہے۔‘‘ تو گویا اس وادی یا مقام پر شیطان کا ڈیرہ ہونے کی وجہ سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کیا تھا۔شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ شیطان کے ڈیروں میں(جہاں شیطان کا تسلط ہو) سے اجتناب کرنا مستحب ہے۔[1] شیطان کے ڈیرے کن کن مقامات کو قرار دیا گیا،یہ ایک الگ اور مستقل موضوع ہے،جو آگے چل کر زیرِ بحث آئے گا۔ان شاء اللہ۔بہر حال قضاے نماز کے لیے اذان کا ثبوت اس واقعے میں موجود ہے،اس صحیح حدیث کی روسے یہی راجح مسلک ہے اور اس کے دلائل پر مشتمل دیگر احادیث بھی ہیں،جن سے ہم صَرفِ نظر کر رہے ہیں۔ ما نعینِ اذان کے دلائل کا جائزہ: بعض دیگر احادیث میں اذان کا ذکر نہیں آتا،جیسا کہ صحیحین کی ان دونوں حدیثوں میں نمازوں کو ان کے اوقات کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے،لیکن ان میں اذان کا تذکرہ نہیں آیا اور نہ صحیح مسلم میں حدیثِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے۔[2] ایسے ہی سنن ابی داود و بیہقی اور مسند احمد میں حضرت عمرو بن امیہ العمری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے۔[3] اس میں صرف اتنا مذکور ہے کہ ہم سفر میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر سے سوئے رہ گئے،حتیٰ کہ سورج نکل آیا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں(سنتوں) سے نماز شروع کی،پھر نماز کی اقامت کہلوائی اور نماز پڑھی۔ ایسے ہی ایک دوسری حدیث سنن نسائی،مسند امام شافعی،صحیح ابن حبان و ابن خزیمہ اور مسندِ احمد میں ہے،جس میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق کا واقعہ بیان فرماتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ایک دن ہماری نمازِ ظہر و عصر اور مغرب قضا ہوگئیں تو مغرب کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تو انھوں نے ظہر کی اقامت کہی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ظہر کی نماز پڑھی،جیسے
Flag Counter