Maktaba Wahhabi

624 - 625
امام شوکانی رحمہ اللہ : معروف مجتہد امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ کی شرح ’’نیل الأوطار‘‘ میں بڑی تفصیل ذکر کی ہے اور اس سلسلے کے سترہ اقوال نقل کیے ہیں،پھر ان کے دلائل وغیرہ کے تذکرے کے بعد سب سے راحج تر قول نمازِ عصر والی رائے ہی کو قرار دیا ہے۔[1] انہی سترہ اقوال کی طرف اشارہ کر کے اپنی تفسیر ’’فتح القدیر‘‘ میں بھی مذکورہ آیت کے تحت لکھا ہے: ’’أَرْجِحَ الْأَقْوَالِ وَأَصَحِّہَا مَا ذَھَبَ اِلَیْہِ الْجَمْہُوْرُ مِنْ أَنَّہَا الْعَصْرُ لِمَا ثَبَتَ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ وَأَھْلِ السُّنَنِ وَغَیْرِھِمْ‘‘[2] ’’صحیح بخاری و مسلم اور سُنن وغیرہ کتبِ حدیث میں ثابت شدہ احادیث کے پیشِ نظر صحیح تر قول جمہور ہی کا ہے،جو کہتے ہیں کہ نمازِ وسطیٰ نمازِ عصر ہے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ : انتہائی مشہور و معروف مفسر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کافی تفصیل ذکر کی ہے۔دیگر اقوال سے قطع نظر نمازِ فجر و ظہر اور عصر کے نمازِ وسطیٰ ہونے والے اقوال کے دلائل بھی ذکر کیے ہیں اور سب سے زیادہ جگہ نمازِ عصر سے متعلق دلائل کو دی اور لکھا ہے کہ امام ترمذی و بغوی رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد والے علما نے نمازِ عصر ہی کو نمازِ وسطیٰ کہا ہے۔قاضی ماوردی کے بقول جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور امام ماوراء النہر علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اکثر محدثینِ کرام نے بھی یہی کہا ہے۔ابن عطیہ رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ جمہور اہلِ علم کا بھی یہی قول ہے اور حافظ دمیاطی کی کتاب ’’کشف الغطاء في تبیین الصلاۃ الوسطـٰـی‘‘ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نمازِ عصر ہے۔صحابہ کرام میں سے حضرت عمر فاروق،علی،ابن مسعود،ابو ایوب،عبداللہ بن عمرو،سمرہ بن جندب،ابوہریرہ،ابو سعید خدری،ام المومنین حضرت حفصہ،ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی نمازِ عصر ہی کی روایات وارد ہوئی ہیں،جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر،
Flag Counter