Maktaba Wahhabi

631 - 625
’’الصَّلَاۃُ الْوُسْطَـٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ‘‘[1] ’’نمازِ وسطیٰ نمازِ عصر ہے۔‘‘ اثرِ ثالث: اثرِ ثالث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے تفسیر طبری،مصنّف عبد الرزاق،محلّٰی ابن حزم اور معانی الآثار طحاوی(واللفظ لہ) میں مروی ہے اور اس کے الفاظ بھی من و عن یہی ہیں،جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہیں۔[2] اثرِ رابع: اثرِ رابع ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،جو تفسیر طبری اور دیگر کتب میں مذکورہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں وارد ہواہے اور انھوں نے بھی نمازِ وسطیٰ کی تفسیر نمازِ عصر سے کی ہے۔[3] اثرِ خامس: اثرِ خامس تفسیر طبری،مصنف ابن ابی شیبہ اور محلّٰی ابن حزم میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اس کے الفاظ بھی: ’’الصَّلَاۃُ الْوُسْطَـٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ‘‘ ہی ہیں۔ ان آثار سے بھی پتا چلا کہ(نمازِ وسطیٰ) نمازِ عصر ہی ہے،نہ کہ کو ئی دوسری نماز۔ آثارِ تابعین رحمہم اللہ : آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح تابعینِ کرام رحمہم اللہ سے بھی بکثرت آثار ملتے ہیں،جن میں نمازِ وسطیٰ کی تعیین نمازِ عصر ہی سے کی گئی ہے۔چنانچہ امام ابراہیم نخعی،حسن بصری،قتادہ،زرّ بن حبیش،ضحاک اور مجاہد رحمہم اللہ کے آثار تفسیر ابن جریر طبری اور اس کی تحقیق میں دیکھے جا سکتے ہیں۔[4] خلاصۂ کلام: خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نمازِ وسطیٰ،جس کی محافظت کی قرآنِ کریم میں سخت تاکید کی گئی ہے،وہ نمازِ عصر ہے اور یہی راجح مسلک ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباري‘‘(8/ 195۔198) میں بیس(20) اقوال اور ان کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد نمازِ عصر والے قول کو ترجیح دی ہے۔
Flag Counter