Maktaba Wahhabi

495 - 625
’’العرف الشذي‘‘ کے مولف نے ’’المبسوط‘‘ کے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں۔معانی الآثار میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین رحمہم اللہ کا قول بھی یقینا ان کی نظروں سے گزرا ہوگا اور صحیحین و سنن کی احادیث و آثار بھی سامنے ہوں گے،جن میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کا عمل مذکور ہے کہ وہ سب غلس میں نماز کے قائل و فاعل تھے۔اس کے باوجود ان کا یہ کہنا کہ ترجیح احناف کے مذہب کو حاصل ہے محل نظرات ہے۔ البتہ اس کی انھوں نے جو دلیل دی ہے،وہ یہ ہے کہ غلس والی احادیث فعلی ہیں اور اسفار والی احادیث قولی ہے اور قولی و فعلی اختلاف کی شکل میں قول حدیث مقدم ہوتی ہے،لیکن اہلِ علم جانتے ہیں کہ یہ اصول صرف اس وقت اختیار کیا جاتا ہے،جب قولی و فعلی حدیث میں جمع وتطبیق ممکن ہی نہ ہو،جب کہ مسئلہ زیرِ بحث میں تو ایسا نہیں ہے،بلکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ ان ہر دو طرح کی احادیث میں موافقت ممکن ہے۔کبار علماے تحقیق میں سے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی ’’أعلام الموقعین‘‘ میں اسی موافقت کا ذکر کیا ہے کہ نماز کا آغاز غلس میں ہو اور اس کی تکمیل اِسفار میں،جیسا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک تھا۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے موافق ہوتا ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے عمل پر مواظبت اور ہمیشگی کی ہو،جس میں اجرِ عظیم نہ ہو،بلکہ اجرِ عظیم اس خلاف عمل میں ہو۔[1] اس ساری تفصیل سے نمازِ فجر کے وقت کی تعیین واضح ہوگئی اور خوب روشنی ہو جانے پر جماعت کھڑی کرنا افضل ہونا ثابت نہیں،بلکہ غلس یا اندھیرے میں جماعت کھڑی کرنا ہی افضل و اولیٰ ہے۔[2] واللّٰه ولي التوفیق۔ نمازِ ظہر: نمازِ ظہر کا وقت زوالِ آفتاب سے شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے،جب تک ہر چیز کا سایہ اس کے برابر یعنی ایک مثل نہ ہو جائے،جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام والی حضرت جابر رضی اللہ عنہ
Flag Counter