Maktaba Wahhabi

621 - 625
امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو روایت بیان کی ہے کہ نمازِ پنج گانہ کے مجموعے کا نام نمازِ وسطیٰ ہے،اس روایت کو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے محلِ نظر قرار دیا اور لکھا ہے کہ امامِ ماوراء النہر علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ پر تعجب ہے کہ انھوں نے کثیر الاطلاع اور قوی الحافظہ ہونے کے باوجود نمازِ پنج گانہ کے مجموعے والے اسی قول کو اختیار کیا ہے،حالانکہ قرآن و سُنّت اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی اس کی دلیل نہیں ہے۔نیز یہ جو حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور حضرت سعید بن مسیّب،قاضی شریح،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام حضرت نافع،ربیع بن خثیم،امام قرطبی اور امام الحرمین جوینی رحمہم اللہ سے مروی ہے کہ لیلۃ القدر کی طرح نمازِ وسطیٰ کو بھی مبہم رکھا گیا ہے۔[1] یہ قول بھی اس بنا پر صحیح نہیں کہ نمازِ وسطیٰ کی تعیین باقاعدہ صحیح احادیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے،جیسا کہ ہم ان احادیث کو بھی ذکر کرنے والے ہیں۔ معروف تفسیر واحدی کے مولف نے نمازِ عشا کے نمازِ وسطیٰ ہو نے کے قول کو اختیار کیا ہے اور امام ابن جریر طبری نے حضرت قبیصہ بن ذؤیب رحمہ اللہ سے نمازِ مغرب کے بار ے میں نمازِ وسطیٰ ہونے کا قول نقل کیا ہے،لیکن قبیصہ رحمہ اللہ والی ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت غیر ثابت ہے۔[2] یہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے،مگر اس کی سند بھی امام ابن کثیر کے بقول محلِ نظر ہے۔[3] محض یہ کہہ دینا کہ مغرب سے پہلے ظہر و عصر ہیں اور بعد میں عشا و فجرہیں،لہٰذا یہ وسطیٰ ہوئی،یہ بات نصوص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ علماے تفسیر کی تصریحات: اب نمازِ وسطیٰ کے بارے میں صرف تین قول باقی ہیں اور وہ ہیں: فجر،ظہر اور عصر۔تو آئیے ان میں سے راجح ترکی تعیین کے لیے احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوالِ شار حین سے پہلے علماے تفسیر کی تصریحات ملاحظہ کریں:
Flag Counter