Maktaba Wahhabi

546 - 625
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رَأَیْتُ ابْنَ جُرَیْجٍ رَکَعَھُمَا بَعْدَ الصُّبْحِ فِيْ مَسْجِدِ صَنْعَآئِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ الْإِمَامُ‘‘[1] ’’میں نے ابن جریج کو دیکھا کہ انھوں نے مسجدِ صنعاء میں اس وقت فجر کی دو سنتیں پڑھیں،جب امام نے فرضوں کاسلام پھیرا۔‘‘ حاصل کلام یہ ہوا کہ گذشتہ صفحات میں ذکر کردہ چاروں احادیث اور تینوں آثار سے صراحتاً واضح ہو گیا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی مرتبہ فرضوں کے بعد اٹھ کر فجر کی پہلی سنتیں پڑھی گئیں،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا،بلکہ بعض کا تو((فَلَا إِذَنْ﴾ کہہ کر مثبت میں جواب دیا اور بعض کی وضاحت پر کہ ’’یہ سنتیں تھیں،جو میں پہلے نہیں پڑھ سکا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کی دلیل ہے،ورنہ ناجائز کام دیکھ کر خاموشی اختیار کر لینا تو شانِ نبوت اور مقامِ رسالت کے منافی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایسی مخصوص صورت میں فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے یہ دو سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں اور یہ صورت اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے،جس کی روسے یہ وقت: اوقاتِ کراہت میں سے ہے۔یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے جائیں کہ فجر کی سنتوں کا اصل وقت اقامت ہو جانے تک ہے۔اگر اس وقت تک کسی وجہ سے نہ پڑھی جاسکیں تو پھر اقامت ہو جانے کے بعد جماعت کے پاس کھڑے ہو کر یہ سنتیں نہیں پڑھنی چاہییں،کیوں کہ اقامت ہو جانے کے بعد اس فرضی نماز کے سوا دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی۔چاہے وہ فجر کی سنتیں ہی کیوں نہ ہوں،اس بات کے متعدد دلائل موجود ہیں،جن میں سے کئی احادیث و آثار بھی ہیں۔ان کے ذکر و تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ان کا تذکرہ آگے چل کر سنن موکدہ کی تفصیلات کے ضمن میں آئے گا۔ان شاء اللہ فجر کے بعد سے مراد: یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث میں فجر کے بعد سے طلوعِ آفتاب کے وقت کو وقتِ کراہت شمار کیا گیا،وہاں حضرت سعید بن مسیب،حمید اور اہلِ رائے کے نزدیک نمازِ فجر مراد نہیں،بلکہ ’’المغني لابن قدامۃ‘‘ میں مذکورہ صراحت کی روسے طلوعِ فجر
Flag Counter