Maktaba Wahhabi

564 - 625
﴿وَافْعَلُوْا کَمَا کُنْتُمْ تَفْعَلُوْنَ،قَالَ کَذٰلِکَ لِمَنْ نَّامَ أَوْ نَسِيَ[1] ’’(اب بھی) اسی طرح کرو،جس طرح تم کیا کرتے ہو اور فرمایا: اسی طرح ہے،جب کوئی سو جائے یا بھول جائے۔‘‘ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی ہے کہ ایسی حالت میں بھی نماز ادا کرنے کا طریقہ وہی ہوگا،جو معمول کے مطابق ہوتا ہے،یعنی اگرچہ اصل وقت گزر چکا تھا،اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ اقامت و جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث والے واقعے کی جزئیات میں بھی یہ بات مذکور ہے۔ اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ بھول جانے یا سو جانے کی شکل میں یاد آنے یا جاگ جانے پر جو بھی وقت ہو،اسی وقت نماز ادا کی جاسکتی ہے۔اس کے لیے کوئی وقتِ کراہت مانع نہیں ہے،وہ عصر کے بعد سے غروبِ آفتاب تک کے درمیان میں ہو یا فجر کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک کا وقت ہے۔احناف کے سوا جمہور علما کا یہی مسلک ہے کہ ان اوقات میں بھی فوت شدہ نمازوں کی قضا جائز ہے۔البتہ عام نوافل پڑھنا مکروہ ہے۔جب کہ احناف کا کہنا ہے کہ اوقات مکروہہ میں جا گنے یا بھولی نماز یاد آنے پر کچھ انتظار کرنے کے بعد نماز پڑھے،جب وقتِ کراہت گزر چکا ہو،لیکن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر کے بعد ظہر کی آخری دو سنتیں پڑھنے اور دیگر احادیث سے جمہور ہی کی تائید ہوتی ہے۔ طلوعِ اور استواے اور غروب کا وقت: اوقاتِ مکروہہ میں سے دو کا ذکر ہو چکا ہے اور اب آئیے بقیہ تین اوقاتِ مکروہہ کی طرف،جو طلوعِ آفتاب،غروبِ آفتاب اور استوا یعنی زوال یا سورج کے عین سر پر ہونے کے اوقات ہیں۔ان اوقات میں بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔چنانچہ صحیح مسلم و ابی عوانہ،سنن بیہقی،طیالسی،مسند احمد اور سنن اربعہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ﴿ثَلَاثُ سَاعَائٍ،نَھَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ نُّصَلِّيْ فِیْھَا،وَأَنْ نَّقْبُرَ فِیْھِنَّ مَوْتَانَا،حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَۃً حَتَّیٰ تَرْتَفِعَ،وَحِیْنَ یَقُوْمُ الظَّھِیْرَۃُ
Flag Counter