Maktaba Wahhabi

568 - 625
نماز کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔اس کے باوجود ان کی طرف سے جواز کے قول کی توجیہ یہی ممکن ہے کہ) یا تو وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح نہیں۔پھر انھوں نے اہلِ مدینہ کے جس عمل کی طرف اشارہ کیا ہے،اس کی بنا پر حدیث کو نہیں اپنایا۔ بہر حال یہ بات پیشِ نظر رکھیں کہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور والا مسلکِ کراہت ہی اقرب الی السنۃ ہے،کیوں کہ اس پر دلالت کرنے والی متعدد صحیح احادیث موجود ہیں۔مثلاً ایک حدیث تو وہی ہے،جسے صحیح مسلم و ابی عوانہ،سنن اربعہ و بیہقی،مسند طیالسی اور مسند احمد کے حوالے سے ہم بیان کرچکے ہیں،جو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں نماز پڑھنے اور میت کو دفن کرنے سے منع فرمایا،جن میں سے: پہلا وقت: جب سورج طلوع ہو رہا ہو۔ دوسرا وقت: ’’حِیْنَ یَقُوْمُ قَائِمُ الظَّھِیْرَۃِ حَتَّیٰ تَمِیْلَ الشَّمْسُ‘‘ ’’جب دوپہر کے وقت سورج عین سر پر ہو،یہاں تک کہ وہ سر سے ڈھل نہ جائے۔‘‘ تیسرا وقت: جب سورج غروب ہو رہا ہو،یہاں تک کہ وہ اچھی طرح غروب نہ ہو جائے۔[1] حدیثِ ثانی: اسی سلسلے کی ایک دوسری حدیث صحیح مسلم،سنن نسائی،ابن ماجہ،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں ان کے اسلام لانے کے واقعے اور کئی دیگر احکامِ دین کی تفصیلات بھی ہیں،اسی حدیث میں اوقاتِ نماز بھی مذکور ہیں،جن کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عین دوپہر کے موقع پر جب سورج نصف النہار پر ہو،نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ اس حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ سورج کے طلوع ہو جانے کے بعد نماز(نوافل وغیرہ) پڑھو۔بلاشبہہ نماز پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔آگے فرمایا کہ نماز پڑھ سکتے ہو: ﴿حَتَّیٰ یَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ،ثُمَّ اقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ فَإِنَّ حِیْنَئِذٍ تُسَجَّرُ جَھَنَّمُ ’’یہاں تک کہ نیزے کا سایہ اس کے مقابل ہو جائے(یعنی سورج سر پر ہو) تب تم نماز
Flag Counter