Maktaba Wahhabi

578 - 625
کراہت و استثنائی صورت کی طرف۔ بقول علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ’’زاد المعاد‘‘(1/ 380 محقق) سورج کے عین سر پر ہونے کے وقت نماز کے مکروہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اہلِ علم کے تین اقوال ہیں: پہلا قول: یہ وقت،وقتِ کراہت ہے ہی نہیں۔یہ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ہم سابق میں ذکر کر آئے ہیں کہ ان کا یہ مسلک مرجوح ہے اور احادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی،حتیٰ کہ خود امام مالک رحمہ اللہ کے اپنے موطا میں حدیث موجود ہے،جس سے اس وقت کے وقتِ کراہت ہونے کا پتا چلتا ہے،جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ دوسرا قول: سورج کے عین سر پر ہونے کا وقت روزانہ ہی وقتِ کراہت ہے۔اس میں جمعہ یا غیر جمعہ کا بھی کوئی فرق نہیں ہے۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور مشہور روایت کی رو سے امام احمد رحمہ اللہ کا مسلک ہے(اگرچہ ایک دوسری روایت کی رو سے وہ جمعہ کے دن کو مستثنیٰ مانتے ہیں) لیکن دلائل کی رو سے یہ مسلک بھی موجود ہے۔ تیسرا قول: تیسرا راجح قول یا اقرب الی السنہ مسلک امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ وقت تو واقعی وقتِ کراہت ہے،لیکن جمعہ کا وقت اس سے مستثنیٰ ہے۔ امام عطاء،مکحول،طاؤس،حسن بصری اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ کا اختیار بھی یہی ہے اور بعض دیگر کبار محدّثین و علما نے بھی اس کی تائید کی ہے۔[1] دلائل کی رو سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ جمعہ کے دن وقتِ زوال میں بھی نوافل پڑھے جاسکتے ہیں یا با الفاظ دیگر جیسا کہ عموماً کہا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن زوال ہوتا ہی نہیں،گویا یہ ایک عامی تعبیر
Flag Counter