Maktaba Wahhabi

381 - 625
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر نماز کے لیے الگ یا نیا تیمم کیا کرتے تھے،چاہے وہ حادث نہ بھی ہوتے۔‘‘ یعنی اگرچہ نواقضِ وضو و تیمم میں سے کوئی امر واقع نہ بھی ہوتا،تب بھی وہ ہر نماز کے ساتھ نیا تیمم کیا کرتے تھے۔اس اثر کو نقل کرنے کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس موضوع کی صحیح تر دلیل یہی اثر ہے اور ہمارے علم کے مطابق صحابہ کرام میں سے ان کا کوئی مخالف بھی نہیں تھا۔[1] جب کہ علامہ یمانی امیرصنعانی رحمہ اللہ ’’سبل السلام‘‘ میں حضرت علی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے آثار کی طرف اشارہ کر کے لکھتے ہیں کہ یہ دونوں بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور اگرچہ کہا گیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اثر اس موضوع کا صحیح تر اثر ہے،مگر ہے تو وہ بھی موقوف(یعنی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل تو نہیں ہے) لہٰذا مذکورہ بالا حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان آثار سے بھی حجت قائم نہیں ہوتی ہے۔آگے علامہ صنعانی فرماتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو پانی کے قائم مقام بنایا ہے اور یہ بات معلوم و معروف ہے کہ پانی سے وضو کرنا،اس وقت تک واجب نہیں ہوتا،جب تک مدت یا نواقضِ وضو میں سے کوئی امر واقع نہ ہو تو اس معاملے میں تیمم بھی وضو کی طرح ہی ہے۔ائمہ حدیث و فقہا کی ایک جماعت کا یہی مذہب اور دلیل کے اعتبار سے بھی یہی مضبوط ہے۔[2] علامہ ابن حزم کی تحقیق کا نچوڑ: یہیں یہ بات بھی واضح کر دیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی مرفوع و موقوف کوئی بھی روایت صحیح ثابت نہیں اور اسی پر بس نہیں،بلکہ خود انہی سے اس کے برعکس مفہوم کی روایت ملتی ہے،جیسا کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلّٰی‘‘(2/ 133) میں ذکر کیا ہے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ تیمم والا شخص اس تیمم سے جو نفلی و فرض نمازیں چاہے،پڑھ سکتا ہے،جب تک پانی نہ مل جائے یا کسی حادث کے واقع ہونے سے اس کا وضو نہ ٹوٹے۔علامہ ابن حزم کے نزدیک اس مسئلے میں یہی صحیح اور حق بات ہے۔علامہ موصوف نے ’’المحلّٰی‘‘ کی جلد اوّل جزو دوم میں متعدد صفحات پر اس موضوع کو ذکر کیا اور خوب دادِ تحقیق دی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ہر نماز کے لیے پانی کی تلاش کرنا
Flag Counter