Maktaba Wahhabi

616 - 625
وعظ و نصیحت اور درس و تدریس ہو تو یہ بلاکراہت جائز اور ثابت ہے۔چنانچہ وعظ و درس کے جواز پر دلالت کرنے والی ایک حدیث امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب کے مواقیت الصلاۃ کے ’’باب السمر في الفقہ والخیر بعد العشاء‘‘ میں لائے ہیں،جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ ایک دفعہ آدھی رات سے زیادہ گزر گئی تونبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی،پھر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿أَلَا إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا ثُمَّ رَقَدُوْا وَإِنَّکُمْ لَمْ تَزَالُوْا فِيْ صَلَاۃٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاۃَ[1] ’’لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے اور وہ سو بھی چکے ہیں اور تم اس وقت تک نماز ہی میں ہو،جب تک کہ اس کے انتظار میں ہو۔‘‘ اس حدیث سے اور خصوصاً اس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بات اخذ کی ہے کہ اگر علم و فقہ اور خیر و بر کی بات ہو تو وہ نمازِ عشا کے بعد بھی جائز ہے،اس مفہوم پر دلالت کرنے والی متعدد احادیث ہیں۔[2] جبکہ مہمان اور اہلِ خانہ سے گفتگو کے جواز کے بارے میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے مستقل ایک باب قائم کیا ہے: ’’بَابُ السَّمَرِ مَع الضَّیْفِ وَالْأَھْلِ‘‘ اور اس باب کے تحت وہ حدیث لائے ہیں،جس میں حضرت عبدالرحمن بن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اصحابِ صفہ فقرا لوگ تھے(یعنی ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا کی قلت تھی،لہٰذا اپنے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر) نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿مَنْ کَانَ عِنْدَہٗ طَعَامُ اثْنَیْنِ فَلْیَذْھَبْ بِثَالِثٍ،وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ ’’جس کے پاس دو آدمیوں کاکھانا ہو،وہ اپنے ساتھ ایک تیسرے کو بھی لے جائے،جس کے پاس چار اشخاص کا کھانا ہو،وہ پانچواں یا چھٹے کو بھی لے جائے۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لائے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس
Flag Counter