Maktaba Wahhabi

481 - 625
﴿ثُمَّ جَائَ ہٗ مِنَ الْغَدِ لِلظُّھْرِ،فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہٖ فَصَلَّی الظُّھْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْیٍٔ مِثلَہٗ ثُمَّ جَائَ ہُ الْعَصْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْیٍٔ مِثْلَیْہِ،ثُمَّ جَائَ ہُ الْمَغْرِبَ وَقْتاً وَّاحِداً،لَمْ یَزُلْ عَنْہُ،ثُمَّ جَائَ ہُ الْعِشَآئَ حِیْنَ ذَھَبَ نِصْفُ اللَّیْلِ أَوْ قَالَ: ثُلُثُ اللَّیْلِ،فَصَلَّی الْعِشَائَ،ثُمَّ جَآئَ حِیْنَ أَسْفَرَ جِدًّا فَقَالَ لَہٗ: قُمْ فَصَلِّہٖ،فَصَلّٰی الْفَجْرَ،ثُمَّ قَالَ: مَا بَیْنَ ھٰذَیْنِ وَقْتٌ[1] ’’اگلے دن جبرائیل علیہ السلام ظہر کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: اُٹھیے نماز پڑھیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر اس وقت پڑھی،جب کہ ہر چیز کا سایہ اس سے برابر ہو گیا۔پھر وہ عصر کے لیے اسی وقت آئے،جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دوگنا ہوگیا۔پھر وہ مغرب کے لیے اس وقت آئے،جس وقت پہلے دن آئے تھے۔اس کا وقت نہیں بدلا۔پھر جبرائیل علیہ السلام نمازِ عشا کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،جب کہ نصف رات گزر گئی یا کہا کہ ایک تہائی رات گزر گئی،تب نمازِ عشا پڑھی،پھر وہ اس وقت آئے،جب فجر کی روشنی خوب پھیل چکی تھی اور فرمایا: اٹھیے نماز پڑھیے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ فجر پڑھی۔تب فرمایا: ان دونوں اوقات کے مابین ان نمازوں کا وقت ہے۔‘‘ اس طرح حکمِ الٰہی سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دن پانچوں وقت کی نماز پڑھا کر ان کے اوّل و آخر دو نوں وقت بتا دیے کہ یہاں سے شروع ہو کر یہاں تک نماز کا وقت ہے۔اس حدیث کی رو سے تو نمازِ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے۔جب کہ صحیح مسلم و سنن ابی داود،نسائی،صحیح ابی عوانہ،سنن دارقطنی اور مسندِ احمد میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازِ مغرب کا بھی اوّل و آخر وقت ہے۔[2] یعنی دوسری نمازوں کی طرح ہی نمازِ مغرب کو بھی ایک خاص وقت تک موخر کیا جاسکتا ہے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی آدمی آیا اور اس نے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا،بلکہ دو دن
Flag Counter