Maktaba Wahhabi

56 - 360
جواب:۔ اس حدیث کی بات تو یہ ہے کہ بے شبہ صحیح حدیث ہے۔ بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے ساتھ موجود ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نزاع کی حالت میں دیکھ کر رونے لگیں تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں رونے پیٹنے سے منع فرمایا اور ساتھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پیش کی۔ بخاری ومسلم میں اسی مفہوم کی دوسری احادیث اتنے تواتر کے ساتھ منقول ہیں کہ اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ علمائے کرام نے اس حدیث اور اسلام کا وہ اصول جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علمائے کرام کی اس کوشش کا اپنی کتاب فتح الباری میں احاطہ کیا ہے۔ اسے ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں: 1۔ یہاں اس حدیث میں عذاب سے مراد اس کا لغوی مفہوم ہے یعنی مجرد تکلیف اور دکھ۔ نہ کہ آخرت یاقبر کا عذاب۔ یعنی جب میت کے اقربا نوحہ خوانی کرتے ہیں تو اس عمل سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔ اقربا کے اس عمل کی خبر میت کو ملتی رہتی ہے جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أن أعمال العباد تعرض على أقربائهم من موتاهم"  بندوں کے اعمال ان کے مُردہ رشتہ داروں پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ ابوجعفر الطبری رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے جید علماء نے یہ تاویل پیش کی ہے۔ (1)۔ 2۔ عذاب سے مراد یہاں فرشتوں کی ڈانٹ پھٹکار ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے، جس کامفہوم یہ ہے کہ میت زندوں کی آہ وبکا سے عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔ کیونکہ بین کرنے والے جب چیخ چیخ کر مرنے والے کو دہائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائے تو ہی میرا سہارا تھا، تو ہی میرا مدد گار
Flag Counter