Maktaba Wahhabi

54 - 360
پہلی حدیث جس میں عورت کی سربراہی کو فلاح کے منافی قراردیا گیا ہے بالکل صحیح ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی کہ فارس والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ مقرر کرلیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی، جس نے کسی عورت کو اپنا سربراہ مقررکرلیا۔ یہ حدیث صحیح بخاری، ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں درج ہے اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت سربراہی کی حقدار نہیں ہے۔ رہی دوسری حدیث جس میں نصف دین کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حاصل کرنے کی ہدایت ہے تو اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نہ اس کی سند معروف ہے اور نہ کسی معتبر حدیث کی کتاب میں اس کی روایت موجود ہے۔ البتہ ابن اثیر نے اپنی کتاب النہایۃ میں اس کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ بتائے بغیر کہ اس کی روایت کس نے کی ہے۔ یہ تو رہا اس کی سند پر کلام۔ اگر اس کے متن اور موضوع پر غور کریں تو عقل اس کوقبول کرنے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ: 1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی ہدایت کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم نصف دین صرف ایک صحابیہ سے اخذ کریں اور باقی نصف دین بقیہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے۔ جن کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں میں ہے اور ان میں سے کتنے ہیں جو علم کے لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے برتر ہیں۔ پھر یہ کہ کون سا نصف دین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اخذ کریں اور کون سا بقیہ نصف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے؟ 2۔ حدیث میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےلیے حمیرا (ننھی سرخ لڑکی) کالفظ استعمال ہوا ہے، جس میں بیوی کے لیے محبت اور نازنخرے کا عنصر موجود ہے۔ عقل اس بات سے انکار کرتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے موقع پر اس لفظ کااستعمال کیا ہو جہاں وہ لوگوں کودین کی اہم بات بتارہے ہوں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ علماء اسلام نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نصف
Flag Counter