Maktaba Wahhabi

35 - 360
تعمیر کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: "أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴿١٧﴾ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ"(الغاشیہ:17۔ 18) کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ سوال یہ ہے کہ جب آسمان رنگوں کا مجموعہ ہے اور کوئی ٹھوس چیز نہیں تو اس کی بلندی چہ معنی دارد؟ جواب:۔ درحقیقت قرآن کی اس آیت میں سرے سے کوئی ایسی بات نہیں، جو ماہرین فلکیات کے نظریے سے ٹکراتی ہو۔ صرف یہی آیت نہیں بلکہ تمام تر قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں، جو ٹھوس تحقیق پر مبنی، جدید سائنسی نظریات سے ٹکراتی ہو۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم ان جدید علوم کا احترام کریں جن کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہوتی ہے اسلام نہ صرف یہ کہ ان علوم کی حمایت کرتا ہے بلکہ وہ ہم مسلمانوں کو ان میں سبقت لے جانے کا درس دیتا ہے۔ افسوس اس کے باوجود ہم مسلمان مغربی تہذیب وثقافت کو توفوراً ہضم کرلیتے ہیں لیکن ان کے علوم اور تحقیقات سے دورہی دور رہتے ہیں، حالانکہ علم وہنر کی شناخت نہ کسی سرزمین سے وابستہ ہے اور نہ کسی مذہب وملت سے۔ علمی استفادہ کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے قطع نظر اس سے کہ جس سے علم حاصل کیا جارہا ہے وہ کافر ہے یا مسلم۔ اس لیے اگر ماہرین فلکیات تحقیق وتجربہ کے بعد آسمان کے سلسلے میں یہ نظریہ قائم کرتے ہیں، تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآنی تعلیمات سے متصادم ہو۔ بلکہ الحمدللہ اس کے برعکس قرآن میں ایسی بہت ساری چیزیں ہیں، جن کی تصدیق ماہرین اور سائنس دانوں نے اپنی تحقیقات سے کی ہے۔
Flag Counter