Maktaba Wahhabi

316 - 360
كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ"(البقرہ:278۔ 279) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (278) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا ۔ اس آیت کے مطابق سود سے توبہ کرنے کا مطلب ہے کہ انسان اپنا اصل مال لے لے اور اس سے جو زائد رقم ہے، اسے چھوڑدے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل مال سے جو زائد رقم ہے وہی سود ہے۔ جہاں تک میں جانتاہوں شیخ شلتوت نے بینک کے سود کو صرف مجبوری کی حالت میں جائز قراردیاہے۔ عام حالات میں بینک کا سودا ن کے یہاں بھی جائز نہیں ہے۔ دین اسلام اس بات کو جائز نہیں تصور کرتا کہ انسان اپنا مال کسی جگہ جمع کرے اور بغیر کسی محنت یاتجارت کے اس پر ایک متعین فائدہ لیتا رہے۔ اگر وہ واقعی بینک میں اپنا مال بحیثیت شریک یا ساجھےدار کے جمع کررہاہے تو اسے نفع ونقصان دونوں میں شریک ہونا چاہیے۔ اور نفع کومتعین کرنے کی بجائے اتنا ہی نفع لے جتنا نفع بینک نے کمایاہے۔ چاہے یہ نفع تھوڑا ہو یا زیادہ۔ لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ بینک میں پیسہ جمع کرنے والا صرف نفع میں شریک ہوتا ہے نقصان میں نہیں۔ اور نفع کی بھی مقدار متعین ہوتی ہے۔ چنانچہ نفع کی ایک قلیل مقدار اس کے حصے میں آتی ہے حالانکہ بینک کامنافع بسااوقات 80 یا90 فیصد سے بھی زائد ہوتا ہے لیکن بینک میں پیسے رکھنے والے صرف 5 یا6 فیصد نفع لیتے ہیں۔ رہا سوال کہ اس حرام(Interest) کا کیا کیا جائے؟
Flag Counter