Maktaba Wahhabi

312 - 360
پھر جب نماز پوری ہوجائے توزمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو(یعنی رزق تلاش کرو) ۔ اور اللہ کا ارشاد ہے: "لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ "(البقرہ:198) اور اگرحج کے ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کروتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تجارت کے ذریعے سے رزق حاصل کرنے کو فضل اللہ سے موسوم کیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی تھی جو تجارت پیشہ تھے۔ مثلاً حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مدینہ ہجرت کرکے آئے تو کچھ بھی ان کے پاس نہیں تھا۔ پھر انہوں نے تجارت شروع کی اور جلد ہی بڑے مالدار ہوگئے۔ اور سبھی جانتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دس خوش نصیبوں میں ہیں جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ اگرتجارت مکروہ چیز ہوتی تو انہیں ہرگزیہ مقام حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ میدانِ جہاد کے علاوہ اگر کوئی دوسری جگہ مجھے مرنے کے لیے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ بازار ہے جہاں میں اپنے گھر والوں کے لیے کچھ خریدوفروخت کرتارہوں۔ ان دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ تجارت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔ البتہ ضرورت ہے کہ تجارت شریعت کے بتائے ہوئے اُصول کے مطابق ہو۔ ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تجارت میں غلط صحیح کی تمیز نہیں کی جاتی اور تاجر اللہ کی نظرمیں گناہگار ہوجاتا ہے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "إِنَّ التُجَّارَ يُبعَثُونَ يَومَ القِيَامَةِ فُجَّارًا ، إِلَّا مَن اتَّقَى اللّٰهَ وَبَرَّ
Flag Counter