Maktaba Wahhabi

308 - 360
لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھائے۔ میں اپنی بات کے لیے مندرجہ ذیل دلیلیں پیش کرتا ہوں: 1۔ حدیث شریف ہے: "كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" (بخاری اور مسلم) تم میں سے ہر شخص ذمے دارہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ امامِ وقت بھی ذمے دار ہے اور اپنی رعیت کے معاملہ میں جواب دہ ہے۔ اس حدیث میں امام وقت یا بالفاظ دیگر حکمران وقت کی ذمہ داریوں کو خاص اور محدود نہیں بلکہ عام اور لامحدود بتایا گیا ہے۔ چنانچہ حکمران وقت اپنی رعایا کی تمام باتوں کاذمہ دار ہے۔ اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ حکمران وقت صرف فلاں اور فلاں باتوں کا جواب دہ ہے بلکہ وہ اپنی رعایا کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہے اور جواب دہ ہے۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن الخطاب فرماتے تھے کہ اگر میرے دادا دریائے فرات کے اس پار بھی قتل کردئیے جائیں تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے میں اپنے آپ کو اس بارے میں جواب دہ تصور کروں گا۔ 2۔ لوگوں کی زندگی میں عدل وانصاف قائم کرنا اسلام کے عظیم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔ اس عدل وانصاف کی خاطر رسولوں کی بعثت ہوئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے: "لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ " (الحدید:25) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔ دوسری آیت ہے: "إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ
Flag Counter