Maktaba Wahhabi

268 - 360
ساتھ ظالمانہ سلوک روارکھا تھا۔ چنانچہ ان کے نزدیک بیوہ عورت حق وراثت سے بالکل محروم ہوتی تھی۔ اس کی قسمت کافیصلہ ان کے اولیاء اپنی مرضی سے کیاکرتے تھے۔ ان کی مرضی ہوتی تو دوبارہ اس کی شادی ہوجاتی ورنہ نہیں۔ بیوہ کی اپنی مرضی کوئی نہیں تھی۔ بیوہ خواہ کتنی ہی مالی مشکلات میں ہو اپنے شوہر کی جائیداد میں سے ایک پیسے کی بھی حقدار نہیں تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بیوہ کو حکم دیاجاتا تھا کہ مکمل ایک سال تک وہ کوئی لباس زیب تن نہ کرے بلکہ خراب سے خراب تر لباس استعمال کرے۔ مکمل ایک سال تک نہ خوشبو لگائے اور نہ کسی قسم کی سج دھج کرے اور سال مکمل ہونے کے بعد مختلف قسم کی بے معنی اور الٹی سیدھی حرکتیں اس سے کروائی جاتی تھیں۔ اس سارے خرافات اور ظلم وناانصافی سے ہٹ کر اسلام کا سلوک بیوہ عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف اور حق پر مبنی ہے۔ اسلام نے بیوہ عورتوں پر صرف تین چیزیں واجب کی ہیں: 1۔ عدت:یعنی شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینے دس دن تک وہ کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی۔ اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ آزاد ہے چاہے تو شادی کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ بیوہ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ مطلقہ عورت کے مقابلے میں بیوہ عورت کی عدت قدرے طویل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے مقابلے میں شوہر کی وفات زیادہ تکلیف دہ اور باعث حزن وغم ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اور نارمل ہونے کے لیے قدرے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ 2۔ زینت وزیبائش سے پرہیز:عدت کی مدت تک بیوہ عورت ہر قسم کی سج دھج اور سامان زینت سے پرہیز کرے گی۔ یہ غم کے اظہار کا موقع ہے۔ غم کا اظہار اور سج دھج دو مختلف چیزیں ہیں۔ بیوہ عورت کا حق ہے کہ اپنے غم کے اظہار کے لیے عدت کی مدت تک ہر قسم کی زیب وزینت کا استعمال ترک کردے۔ بخاری اورمسلم شریف کی
Flag Counter