Maktaba Wahhabi

177 - 360
عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر ہے اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انہیں نمازمیں وہ رغبت نہ پیدا ہو جو مسجد میں ہوتی ہے۔ تاہم بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الایہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ "لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللّٰهِ مَسَاجِدَ اللّٰهِ" (مسلم) اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔ عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ں ہو اور انہیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو، وغیرہ۔ اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انہیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کاحکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔ یہاں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انہیں کسی
Flag Counter