Maktaba Wahhabi

150 - 360
جواب:۔ آپ نے جس طرح ترتیب وار صورتوں کا تذکرہ کیا ہے میں بھی اسی ترتیب سے جواب دیتا ہوں۔ 1۔ پہلی صورت یعنی وہ اصل پونجی جو متحرک شکل میں ہوتی ہے۔ مثلاً کاریں جو فروخت کی خاطر ہوتی ہیں یا کپڑے اور جوتے وغیرہ جو دکانوں میں فروخت کی خاطر رکھے جاتے ہیں تو فقہ کی اصطلاح میں انہیں ’عروض التجارۃ‘ کہتے ہیں۔ یعنی وہ تجارتی اشیاء جنہیں فروخت کر کے ان سے نفع کمانا مقصود ہو۔ چونکہ عروض التجارۃ سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں زکوٰۃ فرض ہے۔ 2۔ اسی طرح وہ چیزیں جو متحرک نہیں بلکہ ثابت صورت میں ہوتی ہیں مثلاً:آفس ، آفس کا فرنیچر اور کمپیوٹر، ٹائپ رائٹر وغیرہ تو انہیں عروض التجارۃ نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ یہ وہ مال تجارت نہیں جن سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ بلکہ نفع کمانے کے لیے انہیں استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ فقہاء کا قول ہے کہ وہ برتن ، فرنیچر اور الماریاں وغیرہ جن میں تجارتی اشیاء رکھی جاتی ہیں یا جنہیں تجارت میں استعمال کیا جاتا ہے مثلاً ترازووغیرہ تو زکوٰۃ کی خاطر ان کی قیمت نہیں لگائی جانی چاہیے اور نہ ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ (1) 3۔ جائیداد اگر تجارتی نقطہ نظر سے خریدی جائے اور اسے فروخت کر کے اس سے فائدہ کمانا مقصود ہو تو اس جائیداد کی قیمت لگا کر اس پر زکوٰۃ نکالنا واجب ہے۔ البتہ اگر زمین خرید کر اس پر کرایہ کی خاطر گھر یادکان بنائی جائے تو اس زمین پر نہیں بلکہ اس کے کرایہ پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں زکوٰۃ کی شرح کیا ہو گی؟ ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیسا کہ عروض التجارۃ میں ہے یا پانچ فیصد جیسا کہ کھیتی کی زمین میں غلے پر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ 4۔ رہے قرضے توان میں سے وہ قرضے کی واپسی ناممکن ہو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ البتہ اگر کسی زمانے میں واپس ہو جائیں تو ان پر ایک سال کی زکوٰۃ فرض ہے۔
Flag Counter