Maktaba Wahhabi

131 - 360
قبل بآواز بلند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتا ہوں اور فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتا ہوں۔ چونکہ مقتدیوں میں اکثریت حنابلہ کی ہے اس لیے وہ مجھ پر اعتراض کرتے رہتے ہیں کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اکثریت کا خیال کرتے ہوئے بسم اللہ زور سے پڑھنا بند کردوں اور قنوت نازلہ پڑھتا ترک کردوں؟یا مقتدیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ میری اقتدا کریں کیونکہ میں ان کا امام ہوں؟ جواب:۔ اگرچہ میں ان دونوں مسائل میں حنبلی مسلک کو راجح سمجھتا ہوں لیکن میری رائے یہ ہے کہ ان اجتہادی مسائل میں تشدد کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیونکہ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ کون سی شکل جائز ہے اور کون سی شکل افضل۔ اختلاف اس میں نہیں ہے کہ کون سی شکل جائز ہے اور کون سی ممنوع ۔ چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں روایت ہے کہ اپنے مسلک کے خلاف انھوں نے ان دنوں قنوت نازلہ نہیں پڑھی جن دنوں وہ بغداد میں تشریف رکھتے تھے۔ کیونکہ بغداد میں اکثریت احناف کی تھی۔ یعنی انھوں نے اکثریت کے مسلک کا احترام کیا۔ یہی اہل علم کا شیوہ ہے کہ وہ اجتہادی امور میں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتے ۔ ایک دوسرے سے جھگڑتے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی رایوں کا احترام کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے میں شیخ االاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کرنے پر اکتفا کروں گا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: تمام مسلمان اس امر پر متفق ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ جیسا کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کا عمل تھا۔ سب ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ جس نے اس کی مخالفت کی اسے گمراہ اور بدعتی تصور کیا گیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین میں ایسے بھی تھے جو بسم اللہ پڑھتے تھے مثال کے طور پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ مالکیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ مالکی حضرات بسم اللہ نہیں پڑھتے ہیں نہ سری نمازوں میں اور نہ
Flag Counter