’’جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ (یعنی اپنے مقدور و حیثیت کے مطابق، اور کسی بات سے خفا ہو کر) اس کے چہرے پر نہ مارو، اور اسے برا بھلا مت کہو، اور صرف گھر کی حد تک اس سے قطع تعلق رکھو (ناراضگی کے وقت)۔‘‘ (اخرجہ ابو داؤد) اس کے ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ ایسی حسن معاشرت اور بامراد و کامیاب زندگی صرف اور صرف باہم مراعات اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی ناگزیر عادات سے چشم پوشی کرنے کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتی ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ : ’’کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہیں کرتا (یا یہ کہ اس کو نفرت نہیں کرنی چاہیے) اگر اس کو کوئی عادت ناپسندیدہ ہو گی تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہو گی۔‘‘ (اخرجہ مسلم) اسی بات کی تائید قرآن مجید کی اس حسن معاشرت والی آیت سے بھی ہوتی ہے: ﴿فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاo﴾ (النساء: ۱۹) ’’اگر تمہیں وہ بری لگیں تو عنقریب جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو ان میں اللہ تمہارے لیے خیر رکھیں گے۔‘‘ بیٹیوں کے ساتھ حسن معاملہ: بہت سے معاشروں اور ادوار میں لوگوں کی یہ عادت رہی ہے کہ بیٹوں سے محبت اور ان کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اسی لیے شریعت نے اولاد ک درمیان عدل و انصاف برقرار رکھنے کی خوب ترغیب و اہتمام کیا ہے۔ جیسا کہ کوئی تحفہ یا عام طور پر کوئی بھی چیز دینے میں بیٹوں اور بیٹیوں میں مساوات و برابری کرنا اور شریعت میں اس کی مثال نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ |
Book Name | رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں |
Writer | شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ الحاج |
Publisher | جامعہ احیاء العلوم للبنات الاسلام مظفر آباد |
Publish Year | |
Translator | شفیق الرحمن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 158 |
Introduction |