Maktaba Wahhabi

92 - 158
مگر فارس، ہندو اور عربوں کے یہاں بھی غلاموں کا حال اس سے کچھ کم بدتر نہ تھا یہاں تک کہ رحمت اور شفقت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا سورج طلوع ہوا اور انہوں نے غلاموں کو ایسے حقوق دئیے جن کی ادائیگی ان کے آقاؤں پر لازم کر دی اور غلام اور آقا کو احکام کی فرضیت میں ایک برابر درجہ دیا ایک طرف سلمان رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی فرمائی جو کہ فارسی غلام تھے اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو بلند مقام عطا کیا اور بلال رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ’’میں نے تمہارے جوتوں کی آواز جنت میں سنی ہے۔‘‘ (متفق علیہ) اور آقا اور غلام کے درمیان مالکیت و مملوکیت کے تعلق کے بجائے بھائی چارے کا تعلق قائم فرمایا اور اسی بابت یہ ارشاد فرمایا: ’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں ۔‘‘ (متفق علیہ) ان کے بارے میں مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیر و بھلائی کی وصیت فرماتے رہے حتیٰ کہ سب سے آخری وصیت نماز کے ساتھ ان کے ساتھ خیر و بھلائی کی بھی وصیت فرمائی۔ خادموں کے ساتھ خیر و بھلائی: شریعت مطہرہ نے خادموں کے ساتھ خیر و بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے اور ان احکام کی مختلف صورتیں اور نوعیتیں مندرجہ ذیل ہیں تاکہ وہ تمام تر پہلوؤں کو شام ہو جائیں : ۱۔ غلاموں کے ساتھ نفسیاتی پہلو میں حسن سلوک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارتے وقت ان کے جذبات کا خیال کرنے کا حکم فرمایا، چنانچہ اس بابت ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اپنے غلام یا باندی کو ’’عبدی‘‘ یا ’’امتی‘‘ کہہ کر نہ بلائے (یعنی کوئی حقیر نام دے کر انہیں نہ پکارے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں نوکرانیوں کو ماسی اور داسی طرح حقیر نام دینے کا رواج ہے) بلکہ چاہیے کہ اسے ’’فتای‘‘ یا ’’فتاتی‘‘ یا ’’غلامی‘‘ کہہ کر پکارے (یعنی اسے اچھے طریقے سے مخاطب کرے)۔‘‘ (متفق علیہ)
Flag Counter