تیسرا سبب:… اس عظیم فتنے کا عالم اسلام میں پھیل جانا، حتی کہ ہر اسلام ملک میں یہ وبا پھیل گئی ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی ملک ہو گا جو اس فتنے سے خالی ہو۔ چوتھا سبب:… بہت سے مصلحین حضرات کی اس سلسلہ میں غفلت؛اور اس امر کی اصلاح کا اہتمام نہ کرنا؛ حالانکہ یہ ان کا اوّلین فریضہ ہے۔ مسلمانوں میں اس امر کے عام ہونے اور پھیلنے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سلطنت فاطمیہ (جو کہ مصر میں تھی) کے زمانہ میں اس کا م کا آغاز ہوا اور پھر یہ پھیلتاہی چلا گیا۔ اشیاء کی طبیعت یہ ہوتی ہے کہ ان کا پھیل جانا ان کی تقویت کیx بنیاد بن جاتا ہے اور پھر مزید پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ناپاک کڑی وجود میں آ جاتی ہے جو کہ ہر منکر کو معروف اور معروف کو منکر بنادیتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان مصلحین کی آوازیں اور دعوت دین کی محنت ضائع ہو جاتی ہے جو کہ وقتاً فوقتاً اورجگہ جگہ تسلسل کے ساتھ اس کام میں اپنی کاوشیں صرف کرتے چلے آتے ہیں او رلوگوں کو اس وباء اور بلاء سے ڈراتے رہتے ہیں جیسا کہ انبیائے کرام علیہم السلام یہ کام انجام دیا کرتے تھے۔ دوسری تنبیہ: کسی عمل کو شرک یا کفر کہنے سے یہ ضروری نہیں کہ اس کا مرتکب اسلام سے خارج ہو، یا اس کے ساتھ بالکل مشرکین اور کفار والا معاملہ ہی کیا جائے۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ جو جاہل مسلمان شرکیہ اعمال کا ارتکاب کر چکے ہیں اگر نہیں کفر اور قتل کے درمیان اختیار دے دیا جائے تو وہ کفر پر اپنی جان دینے کو ترجیح دیں گے، بلکہ ان کا قرآن پر ایمان اور اللہ تعالیٰ و رسول سے محبت کسی بھی موحد مسلمان سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن ان کے یہ اعمال شرکیہ اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ان کو ان اعمال کے حکم کا علم نہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ یہ اعمال توحید کے منافی ہیں ۔ لہٰذا جاہل کو سمجھانا اور غافل کو جگانا فرض ہے۔ اصلی اور بڑا خطرہ ان لوگوں کا ہے جو اس کا علم رکھتے ہیں اور قرآن و سنت کے اس سلسلے میں وارد نصوص سے آگاہ ہیں ، مگروہ اس کا حکم لوگوں کو نہیں بتاتے۔ قرآن کا فرمان ہے: |