اور تم پر خود فضیلت / ترجیح دئیے جانے کے وقت میں امیر کی بات سننا اور ماننا لازم ہے۔ ‘‘(اخرجہ مسلم) اور حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ سلمہ بن یزید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ:’’ آپ کی کیا رائے ہو گی کہ اگر ہم پر ایسے حکمران بنا دئیے جائیں جو ہم سے اپنا حق پورا پورا لیں اور ہمارے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کریں ؟ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا۔ صحابی نے پھر وہی سوال کیا تو پھر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگ امیر کی بات سنتے رہو اور مانتے رہو پس انہیں جن اعمال کا مکلف بنایا گیا ان پر (ان اعمال کو نہ کرنے کی وجہ سے) ان کا گناہ ہو گا اور تمہیں جن اعمال کا مکلف بنایا گیا تم پر ان اعمال کی ذمہ داری ہے۔‘‘ (رواہ مسلم) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جسے اپنے امیر کی کوئی عادت یا بات ناپسند ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے کیونکہ امیر کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی باہر نکل گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (متفق علیہ) اطاعت کی حدود: اس گزشتہ بحث سے امراء/حکام کی بات سننے اور ماننے میں اور ان اطاعت کرنے کی اہمیت اور ضوابط کا پتہ چلتا ہے؛چاہے وہ نیکوکار ہوں یا بدکردار۔اورشریعت کے حکم کی تعظیم اور اہمیت واضح طور سے ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں لوگوں کی جانوں کی حفاظت اور استقامت و سلامتی کے ساتھ لوگوں کے احوال کی بقا کا راز ہے۔ لیکن ایک ضروری بات جو آگاہی سے متعلق ہے، یہ ہے کہ سننا اور ماننا صرف اور صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: |