انسان ایک ایسا عالم مفتی بنے کہ اس پر شریعت کے تمام مسائل میں سے کوئی بھی مسئلہ مخفی نہ رہے حتیٰ کہ وہ تبلیغ کا اہل ہو جائے۔ نہیں ! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف توجہ فرمائیے؛ وہ فرماتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھے جو ہم سے حدیث سنے پھر اسے یاد کرے اور کسی دوسرے آدمی تک پہنچا دے۔ بسا اوقات کوئی علم کی بات آدمی اس شخص تک پہنچانے والا ہوتا ہے جو اس بات کو زیادہ صحیح سمجھنے والا ہوتا ہے اور بسا اوقات علم کی بات جاننے والا غیر سمجھ دار اور غیر فقیہ ہوتا ہے۔‘‘ (اخرجہ ابو داود، و الترمذی و ابن ماجہ و ابن حبان) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ شاید کہ تبلیغ کرنے والا فی الواقع فقیہ نہ ہو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے قصوں پر غور کیجیے آپ ان میں سے ایک شخص کو دیکھیں گے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے پھر چند دن گزرتے نہیں کہ وہ اپنی قوم کی طرف تبلیغ کرتا ہوا اور اس نور کی بشارت دیتا ہوا واپس ہو لیتا ہے جس کو آپ علیہ السلام لے کر آئے اور اگر اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اس کے نور کی بشارت علم میں تعمق اور گہری غور و فکر کرنے والوں کی جاگیر ہوتی تو حلقہ اسلام میں داخل ہونے والے یہ نئے حضرات اس کی ذمہ داری نہ اٹھاتے۔ دعوت و تبلیغ کرنے والے کی شروط: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث کے درمیان سے ہم جن پر دعوت و تبلیغ اور اس کی ذمہ داری کو سرانجام فرض ہے ان کے لیے دو شرطیں نکالتے ہیں ۔ پہلی شرط:… شرع کا جو حکم یا بات دوسرے تک پہنچا رہا ہے اس کا اتنی اچھی طرح یاد کرنا کہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے کی وعید میں داخل نہ ہو سکے۔ بلاشک و شبہ یہاں |