Maktaba Wahhabi

85 - 158
کہ گھر اور گاڑی کی قسطوں کی ادائیگی تک میں شریک ہو سکے۔ یا اس کی حیثیت ایسی ماں کی ہے جس کے بڑھاپے کے بعد اس کی اولاد اس کو کسی معاشرتی تحفظ حقوق کے ادارے میں (سوشل ویلفیئر ہوم) اس کی دیکھ بھال اور خدمت سے بچنے کے لیے لا کر پھینک دیا ہو۔ پھر اس کے بعد نہ تو اس کی خیریت کے بارے میں کوئی سواء ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے ملنے کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ماں کے ساتھ حسن سلوک: بلاشک وشبہ اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے وجوب کو اپنی توحید کے وجوب کے ساتھ مربوط کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْہَرْ ہُمَا وَ قُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاo﴾ (الاسراء: ۲۳-۲۴) ’’اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کیا کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا ہے۔‘‘ قاضی ابوبکر بن البغدادی المالکی رحمۃ اللہ علیہ احکام القرآن میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
Flag Counter