Maktaba Wahhabi

101 - 158
داری کا سلوک روا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ: ’’جو تمہیں (اپنی کوئی چیز بطور) امانت رکھوائے تو تم اسے اس کی امانت (جوں کی توں ) ادا کرو، اور جو تمہارے ساتھ خیانت کر لے تو (بدلے میں ) تم اس کے ساتھ خیانت مت کرو۔‘‘ (اخرجہ ابو داود و الترمذی و قال: حسن غریب) امانت میں خیانت کرنا منافقین کی نشانیوں میں سے ہے: پیچھے جو کچھ گزرا اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ امانت کے زیور سے آراستہ ہونا مومنین کی امتیازی صفات میں سے ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان چیدہ و برگزیدہ مومنین کا امتیازی وصف ہے جو کہ پاکیزہ نفوس والے اور اولوالعزم تھے۔ اور اس کے برعکس (دین اورایمان میں ناقص اور) کمزور دلوں والے اورپست ہمتوں والے لوگوں (یعنی منافقین) کا امتیازی وصف خیانت اور غداری کرنا ہے۔ چنانچہ بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ) ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے : ’’اگرچہ وہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور یہ سمجھے کہ وہ مسلمان ہے (مگر منافق والی صفات ہونے کی وجہ سے اعتقادی منافق تو نہیں مگر عملی منافق ہو گا)۔‘‘ اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے کہ: ’’ تمہیں آدمی کی صرف شان و شوکت تعجب میں نہ ڈالے۔ مگر جو امانت ادا کرے اور لوگوں کی آبرو ریزی سے رکا رہے تو وہ اصل میں کامل مرد ہے۔‘‘ (اخرجہ البیہقی فی الکبری)
Flag Counter