Maktaba Wahhabi

75 - 158
’’سبحان اللہ! ہر طرف خون ہی خون! میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گا اور نہ ہی اس بات کا حکم دوں گا۔ ان کٹھن حالات پر صبر کرنا جن سے ہم گزر رہے ہیں اس فتنے سے ہزارہا درجے بہتر ہے جس میں خون ریزی کی جائے اور لوگوں کے مالوں کو حلال سمجھ کر اس پر قبضہ کیا جائے اور ان کی آبرو ریزی کی جائے۔‘‘ تو میں نے اس پر کہا کہ لوگ کیا آج اس فتنے کی لپیٹ میں نہیں ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’اگرچہ لوگ آج بھی اس فتنے کی لپیٹ میں ہیں ۔ مگر میری مراد ایک خاص فتنہ ہے پس جب تلوار نیام سے باہرآ جائے تونتیجتاً فتنہ عام اور امن کے تمام راستے منقطع ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا اس موجودہ حالت پر اس طرح صبر کرنا کہ تمہارا دینا سلامت رہے تمہارے لیے خروج علی الامام سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ جس نے تاریخ میں غور و خوض کیا ہو گا اسے معلوم ہو گا کہ سب سے پہلے آزمائش جس سے دین اسلام دو چار ہوا وہ خلیفۃ المسلمین عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر مسلمانوں کی ایک مختصر سی جماعت کا خروج تھا اور معلوم رہے کسی بھی برحق امری و حاکم پر خروج سے امت اور دنیا کے لیے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ہوئی۔ حکمرانوں کو نصیحت کرنا: حضرت تمیم بن اوس الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’دین تو سراسر خیرخواہی اور نصیحت ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: کسی کے لیے؟ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب، مسلمانوں کے امام/حاکم اور عوام الناس کے لیے۔‘‘ (اخرجہ مسلم) درحقیقت حکمرانوں کا اپنی رعایا پر سب سے بڑا حق ان کے لیے نصیحت و خیرخواہی ہے او یہ وعظ و نصیحت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جن کی طرف فوراً ذہن جاتا ہے، سب کو شامل ہے لہٰذا امراء کے لیے خیر خواہی انہیں نیکی کا حکم کرنے، برائی سے روکنے، خیر کی جانب
Flag Counter