Maktaba Wahhabi

74 - 158
اسی میں انسانیت کے مقدس لہو کی حفاظت اور بڑے بڑے مصائب کا خاتمہ ہے اور فقہاء کا اجماع اس وقت تک قائم رہے گا جب تک حاکم سے صریح کفر صادر نہ ہو جائے۔‘‘ اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ہماری یہ رائے نہیں ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور امراء پر خروج کیا جائے، اگرچہ وہ ظلم و زیادتی کریں اور نہ ہی ہم ان کے لیے بددعا کریں گے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچیں گے اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں سے ایک فریضہ سمجھیں گے جب تک کہ وہ کسی معصیت کا حکم نہ کریں اور ان کے لیے عافیت و درستگی کی دعا کرتے رہیں گے۔ سلف صالحین کا اس قصے پر اجماع صرف اور صرف اس لیے ہے کہ خروج علی الامام /حکمرانوں کے خلاف بغاوت میں اتنا بڑا فتنہ و فساد اور لوگوں کو مصائب و مشکلات میں ڈالنا ہے جس سے نہ ان کا دین درست رہ سکتا ہے اورنہ ہی دنیا۔‘‘ امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک اثر منقول ہے، فرماتے ہیں : ’’امام وقت ہی لوگوں کی درستگی اوراصلاح کا ضامن ہوتا ہے چاہے وہ نیکوکار ہو یا بد، پس اگر امام بد ہو گا تو مومن بندہ اس کے دور میں اپنے رب کی عبادت کرے گا اور فاجر کو اس میں اپنے مقررہ وقت (موت) تک لے جایا جائے گا۔‘‘ (اخرجہ الطبرانی فی تفسیرہ) ابو الحارث الصائغ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:’’ میں نے ابو عبداللہ یعنی احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس واقعے کے بارے میں دریافت کیا جو کہ بغداد میں پیش آیا تھا اور وہاں کے لوگوں نے اپنے امام پر خروج کا ارادہ کر لیا تھا اور ان سے کہا: ان لوگوں کے ساتھ خروج علی الامام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے ان لوگوں کے اس فعل پر نکیر فرمائی اور یہ کہنے لگے:
Flag Counter