اور اس کے برعکس والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شامل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تم لوگوں کو کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں (کہ وہ کون کون سے ہیں ) تین مرتبہ آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! ضرور بتلا دیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، آپ علیہ السلام ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے یہ حدیث ارشاد فرما رہے تھے پھر سیدھے بیٹھ گئے اور پھر فرمایا: ’’غور سے سنو! جھوٹی گواہی (دینے سے بچنا) صحابہ فرماتے ہیں کہ آپ مسلسل یہ بات دہراتے رہے حتی کہہم نے کہا کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ (متفق علیہ) بیوی کے ساتھ حسن معاشرت: قرآن کریم نے اس بات کو واضح طور سے بیان فرمایا ہے کہ نکاح کا مقصد زوجین کے درمیان سکون و اطمینان کا وجود اور باہم محبت و الفت کا قیام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ (الروم: ۲۱) ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہارے جنس کی بیبیاں بنائیں ، تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے، اورتم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔‘‘ بلاشبہ اللہ جل شانہ نے بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم فرمایا ہے یا پھر حسن معاملہ کے ساتھ اس سے جدائی اختیار کرنے کا راستہ اپنایا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: ۱۹) ’’اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزارا کیا کرو۔‘‘ |