’’والدین کے ساتھ حسن سلوک ارکان دین میں سے ایک رکن ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک اقوال (کہا ماننے) اور افعال (خدمت) دونوں میں ہو گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ وہ دونوں کافر ہی کیوں نہ ہوں اور اپنی اولاد کو کفر اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہوں۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ اِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْمَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo﴾ (لقمٰن: ۱۵) ’’اگر تجھ پر وہ دونوں اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرا، جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو تو ان کا کچھ کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا اور اسی راہ پر چلنا جو میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کو میرے پاس آنا ہے پھر میں تم کو بتلا دوں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔‘‘ اور بلاشبہ سنت مطہرہ یہ بیان کرتی ہے کہ والدین میں سے بھی حسن سلوک اور حسن معاشرت کی زیادہ حق دار ماں ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا کہ میرے حسن سلوک کا لوگوں میں سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں ۔ اس شخص نے کہا: پھر کون زیادہ حق دار ہے؟ تو آپ نے پھر وہی جواب ارشاد فرمایا، تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پھر عرض کیا: پھر کون زیادہ حق دار ہے؟ تو آپ نے تیسری مرتبہ بھی وہی جواب دہرایا کہ تمہاری ماں ! اس شخص نے چوتھی مرتبہ عرض کیا کہ پھر کون زیادہ حق دار ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پھر تمہارا باپ۔ (اخرجہ البخاری و مسلم) یعنی والدہ والد پر حسن سلوک کے استحقاق میں تین درجے مقدم ہے۔ |