کرنے کا سبب ہے؛ ان سب چیزوں کے بنانے والے اکثر بادشاہ اور امراء تھے جو یہ چیزیں یا تو اپنے قریبی رشتہ دار کی قبر پر بناتے تھے، یا کسی عالم یا پیر فقیر کی قبرپر۔ اور لوگ ان کی زیارت کرتے تھے جیسے ساری قبروں کی زیارت کرتے ہیں نہ تو ان سے کچھ حاجت طلب کرتے تھے نہ ان سے دعا مانگتے تھے۔ بلکہ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ جب یہ لوگ بھی دنیا سے چلے گئے تو ان کے بعد آنے والی نسل نے دیکھا کہ اس قبر پر اتنی بلند عمارت بنی ہوئی ہے، چراغاں کیا گیا ہے، چادریں چڑھائی گئی ہیں ، پھول چڑھائے گئے ہیں ان سے خوشبو پھوٹ رہی ہے تو یہ گمان کیا کہ یہ سب کچھ کسی فائدہ کی وجہ سے ہی کیا گیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ وہاں کے مجاور لوگ ان کو اپنی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں سناتے ہیں کہ اس میت (صاحب قبر) نے فلاں فلاں کام کیے ہیں ۔ کسی کو نفع یا نقصان پہنچایا ہے، تو وہ اس کے مزید معتقد ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے احادیث میں قبروں پر چراغاں کرنے، کتبے لگانے اور بڑی بڑی عمارتیں بنانے والے پر لعنت کی گئی ہے، یہ کام خود بھی (فی ذاتہٖ) ممنوع ہے پھر یہ اور خرابیوں (منکرات) کا باعث بھی بنتے ہیں ۔ اعتراض: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بھی تو بہت بڑا گنبد بنایا گیا ہے اور اس پربہت زیادہ مال و دولت خرچ کیے گئے ہیں ؟ جواب:یہ اعتراض تو اصل میں جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ گنبد نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوایا نہ صحابہ نے،نہ تابعین اور تبع تابعین نے، اور نہ ہی امت میں سے کسی عالم دین ؛یا کسی امام نے یہ کام کیا ہے۔ بلکہ اس کو بنانے والا ایک بادشاہ تھا جس کا نام قلاوون الصالحی تھا اوربادشاہ منصور کے نام سے مشہور تھا ۔اس نے اس گنبد کو ۶۷۸ھ میں بنوایا۔ یہ حکومت سے متعلق سیاسی چیز ہے کوئی شرعی دلیل نہیں جس کا اتباع کیا جائے۔ |