Maktaba Wahhabi

115 - 158
ہندوستان کے علامہ نواب صدیق حسن خان قنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ ہر زمانے میں اور ہر جگہ علمائے دین لوگوں کو خالص دین توحید کی طرف بلاتے رہتے ہیں اور ہر قسم کے شرک سے روکتے رہتے ہیں لیکن جب شرک چیونٹی کے رینگنے کی آواز سے بھی زیادہ مخفی ہے (باریک ہے) (جیسا کہ آپ علیہ السلام نے آگاہ فرمایاہے) تو بہت سے علماء سے مخفی ہو گیا اور اسی کم علمی کی وجہ سے لوگ شرک میں مبتلا ہو گئے۔ اور یہ کم علمی ’’فحول‘‘ کی مصنفات اور بہت سے شعراء کی شاعری میں بھی پائی جاتی ہے۔ خاص کر وہ شعراء جنہوں نے آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام کی شان میں قصیدے کہے ہیں ۔ کیونکہ کہیں کہیں ان لوگوں سے ایسی باتیں صادر ہو گئی ہیں جس کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اوردل میں ڈر لگتا ہے کہ اللہ کا غضب نہ نازل ہو جائے پڑھنے والے پر۔ لکھنے والے کا توکیا ہی کہنا! اور اس کا سبب یہ ہی کم علمی اور غفلت ہے جو مختلف اوقات میں ان کے احوال اور اقوال سے ظاہر ہوتی ہے۔ جو اِن فتنوں کے وجود کا سب سے پختہ سبب ہے اور چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں : قبروں کو پختہ بنانا، ان پر گنبد بنانا، شاندارچادروں سے ان کی آرائش کرنا، ان پر چراغاں کرنا، ان کی زیارت کے لیے جمع ہونا، عاجزی کا اخیر کرنا، مردوں سے حاجتیں طلب کرنا، اپنے دل سے ان سے دعا مانگنا۔‘‘ جب یہ سلسلہ پیچھے سے چلتا ہوا آ رہا ہے اور پچھلوں نے اگلوں کی پیروی کی تو اس معاملہ کا شر اور خطرہ اور بڑھ گیا، ہر ملک؛ہر کونے ؛ ہر شہر بلکہ ہر گاؤں اور ہر معاشرہ میں عام ہو گیا۔ ہر جگہ ایسے کچھ فوت شدگان موجود ہوتے ہیں جن کے بارے میں زندہ لوگ عجیب اعتقاد رکھتے ہیں ان کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھ رہتے ہیں ۔ اور یہ کام شرک میں مبتلا لوگوں کے نزدیک ایک مانوس کام ہے۔ ایک ایساکام ہے جسے ان کی عقلیں تسلیم کرتی ہیں ، ان کے
Flag Counter