Maktaba Wahhabi

116 - 158
دل اس کو اچھا سمجھتے ہیں اور یہ لوگ اس پر دلی طور پرخوش ہوتے ہیں ؛ اور ان کی سوچ و فکر میں یہ سب کچھ بہت اچھا ہے۔ جب ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا اور سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے کانوں میں انہی قبروں والوں کے نام؛ان کی عبادت؛ ان کی زیارت کرنا، ان پر مجاور بنے رہنے کی آواز گونجتی ہے۔ اور دیکھتا ہے کہ جب ان میں سے کسی ایک کا پاؤں بھی پھسل جاتا ہے تو وہ انہی مُردوں کو ہی پکارتاہے۔ اور اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اس کے گھر والے شفا حاصل کرنے کے لیے اس درگاہ والے میت کے لیے اپنے مالوں میں سے کچھ حصہ وقف کر دیتے ہیں ۔ اور کسی ضرورت کے وقت ان ہی قبروں والوں کے وسیلے سے دعائیں مانگتے ہیں ۔ اور ان قبروں کے مجاوروں اور گدی نشینوں کو (جو لوگوں کے مال کو مختلف حیلوں سے کھاتے ہیں ) نذرانہ پیش کرتے ہیں تاکہ وہ ان کی مراد پوری کر دیں ۔ اس کے بعد جب وہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے دل میں یہ سب کچھ جو اس نے دیکھا اور سنا ہوتا ہے ایسا راسخ ہو جاتا ہے جیسے پتھر پر لکیر۔کیونکہ بچے کی فطرت ہر چیز سے اثر لینے میں بہت مضبوط ہوتی ہے اور جب وہ اپنے والدین کے ہاں سے باہر کے ماحول میں نکلتا ہے تو اکثر لوگوں کو وہی کرتا ہوا پاتا ہے جو اس کے والدین کرتے ہیں ۔ اوراکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اپنے گھر کے بعد جو پہلی جگہ دیکھتا ہے اور وہاں جاتا ہے وہ ان ہی قبروں میں سے کوئی قبر ہوتی ہے اور وہاں پر لوگوں کا ازدہام اور اجتماع، چیخنا چلانا، دعا مانگنا دیکھتا ہے تو اس کا اپنے والدین اور دوسرے بڑی عمر کے لوگوں سے حاصل کیا ہوا اعتقاد اور مضبوط ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب دیکھتا ہے کہ قبروں پر بلند و بالااور عالیشان عمارتیں بنی ہوئی ہیں ، اس کی دیواریں رنگ و روغن سے مزین ہیں ان پر شاندار پر دے لٹکے ہوئے ہیں ، قبروں سے خوشبوئیں پھوٹ رہی ہیں ، ہر طرف چراغاں ہے اور خدمت گار مجاوراور گدی نشین سجادے (جو مختلف حیلوں سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں ) ان چیزوں کی حد درجہ تعظیم کرتے ہیں ۔ لوگوں کے دلوں میں بھی ان کی ہیبت بٹھاتے ہیں اور آنے والی زائرین کو ہاتھ پکڑ کر نہایت عاجزی اور تعظیم سے قبروں تک پہنچاتے ہیں اور ذرا سی بھی بے ادبی پر زجر و توبیخ کرتے ہیں تو اس
Flag Counter