بیچارے بچے کا یقین اور پختہ ہو جاتا ہے اور یہ غلط عقائد اس کے دل میں اس طرح راسخ ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور لطف و کرم کے بغیر ان کاختم ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور جب اس ماحول میں بڑھنے والا بچہ علم حاصل کرنے لگتا ہے تو اپنے فرقے کے اکثر علماء کو اس صاحب قبر کا معتقد پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہ علماء اس کی حد درجہ تعظیم کرتے ہیں ان کی محبت کو اللہ کے ہاں اعمال مقبولہ میں شمار کرتے ہیں اور جو اس کے امر کی مخالفت کرے اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص اولیاء کا معتقد اور صلحاء کا محب نہیں ہے۔ تو ظاہری سی بات ہے کہ اس طالب علم کی محبت ان صاحب قبر سے اور بڑھ جائے گی اور اس کا ان کے بارے میں اعتقاد اور راسخ ہو جائے گا۔ یہ بہت بڑی بدعت اور عظیم فتنہ-یعنی مُردوں سے نفع و نقصان کا عقیدہ- جو مشرق و مغرب میں پھیل گیا ہے اوراکثر لوگ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں ؛ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اس نے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور اسلام کو کمزور کر دیا ہے۔ قبروں کو بلند و بالا بنانا، ان پر گنبد بنانا، آنے والے زائرین کو مختلف وسائل سے مرعوب کرنا، یہ تمام امور جن کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے ان عقائد کی بنیاد ہیں اور کوئی عقلمند اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ ہی امور اس عظیم فتنے میں مبتلا ہونے کے اسباب ہیں ۔ جسے اس بات میں شک ہو اور اس کی عقل اس بات کو تسلیم نہ کرتی ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی تحقیق کرے۔ سب سے اقرب تو یہ ہے کہ عوام سے ہی ان اعتقادات کے سبب کے بارے میں پوچھ لے تو اکثر لوگ یہی بتائیں گے جو میں نے ذکر کیا۔ علامہ قنوجی رحمہ اللہ نے آخر میں اپنی بات کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے کہ: ہم پر واجب ہے کہ متقدمین کی تصنیفات اور ان کے اشعار، خطبے اور خطوط پر وہ حکم لگائیں جو ان کا حق بنتا ہے اور ان میں جو کچھ ہے اسے لوگوں پرواضح کر دیں اور اس پر عمل کرنے سے انہیں روک دے اور ان کے مصنّفین کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں ایسی تاویلیں کر دے جو عقل کے خلاف نہ ہو اللہ نے اس زیادہ کا ہمیں مکلف نہیں بنایا ہے۔‘‘ |