اگر قاری صاحب ان سب باتوں میں جس کا ذکر چکا غور و فکر کرے تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امر کے بارے میں وصیت اور غایت اہتمام کی حکمت کا اندازہ ہو جائے گا۔ اسی مسئلہ کے بارے میں آٹھویں صدی (ہجری) کے ایک عالم نے بھی یہ فرمایا ہے کہ: ’’ شیطان کا سب سے بڑا مکر و فریب جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور اس کے فتنے سے سوائے جسے اللہ چاہے کوئی نہیں بچ سکتا؛وہ یہ ہے کہ اپنے چیلوں کو زمانہ قدیم میں اور آج بھی تلقین کرنا، یعنی قبروں کے ذریعے سے فتنہ میں مبتلا کرنا؛ حتی کہ ان قبروں والوں کی عبادت کی جانے لگی، ان کی قبروں کی پوجا کی جانے لگی، مُردوں کی تصویریں بنائی گئیں ، پھر ان کی مورتیاں بنائی گئیں پھر ان کو سایہ فراہم کیا گیا، پھر ان کی عبادت شروع ہو گئی یہ بیماری سب سے پہلے قوم حضرت نوح علیہ السلام میں پھیلی تھی۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: ﴿قَالَ نُوحٌ رَبِّ اِِنَّہُمْ عَصَوْنِی وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُہٗ وَوَلَدُہٗ اِِلَّا خَسَارًاo وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًاo وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًاo وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا﴾ (نوح: ۲۱-۲۴) ’’نوح علیہ السلام نے فرمایا: میرے رب!انہوں نے میری نافرمانی کی؛اور ایسوں کے تابع ہوئے ہیں جو ان کے مال و اولاد میں نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دے سکے؛ اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا، انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو ان کو گمراہ کر دے۔‘‘ علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: محمد بن قیس رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ: ’’ یغوث اور یعوق اور نسر اللہ کے نیکوکار بندے تھے اور ان کے کچھ پیروکار تھے جب ان اصحاب کا انتقال ہو گیا ان کے پیروکار آپس میں کہنے لگے اگر ہم ان کی |