جاتا ہے اور وہ ان جھوٹی باتوں کے ذریعے مال و دولت حاصل کر لیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے قبروں پر بہت زیادہ نیازیں چڑھنے لگی ہیں اور بہت سا مال ان پر وقف کیا جاتا ہے۔ امام علامہ محمد بن اسماعیل صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جان لو کہ ہم جن امور کو یہاں پر بھرپور انکار کرتے رہے ہیں اور ان کے انہدام کے لیے کوشاں ہیں یہ دراصل ان عوام الناس سے صادر ہونے والے اعمال ہیں جن کا اسلام ان کے آباء و اجداد کی تقلیدجامد پر مبنی ہے؛ ان کو صحیح غلط کا کچھ پتہ نہیں ۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور پروان چڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر والے ؛محلے والے سب ہی اسے اس بزرگ کا جس کے یہ لوگ معتقد ہیں ، نام لینے کی تلقین کرتے ہیں ۔اور دیکھتا ہے کہ لوگ ان[کی قبروں ] پر [جا جا کر]نذریں چڑھا رہے ہیں ان کی تعظیم کرتے ہیں ؛ اور اسے بھی ان بزرگوں کے مزارات پر لے جاتے ہیں تو اس کے دل میں بھی ان کی تعظیم پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی ان کا معتقد بن جاتا ہے۔ بچہ اسی پر پروان چڑھتا ہے اور بڑا ہو جاتا ہے۔ اور کسی کو اس سے منع کرنے والا نہیں پاتا۔ بلکہ علماء (سوء)، عدالت کے جج یا کسی بڑے منصب (مثلاً فتویٰ، درس و تدریس یا ولایت) پر فائز لوگ بھی اس قبر والے کی تعظیم کرتے ہیں اس پر نذریں چڑھاتے ہیں اور قبروں کے نام کا ذبیحہ کھاتے ہیں تو عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہی دین اسلام ہے۔‘‘ کتاب و سنت کی شد بد رکھنے والے کسی بھی عقل مند پر یہ بات مخفی نہیں کہ کسی برائی پر عالم دین، یا پورے عالم کا سکوت اختیار کرنا(اور اس برائی سے منع نہ کرنا) اس برائی کے جواز کی دلیل نہیں ہے۔ ہر خاموشی رضامندی پر دلالت نہیں کرتی ۔(اصل بات یہ ہے کہ) ان منکرات کو ایجاد کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے۔ اور باقی سب لوگ ان کے ماتحت ہیں ۔ تو ایک فرد (اکیلا آدمی) ان برائیوں کو کیسے روک سکتا ہے ؟ کیونکہ قبروں پر گنبد اور مساجد بنانا جو شرک کا سب سے بڑا ذریعہ اور دین اسلام کو منہدم |